سپریم کورٹ ،18ویں اور21ویں آئینی ترامیم کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت

تبدیلی کی شدت کیساتھ ڈیمانڈ کی جائے کہ ایک سیکولر ریاست ہونی چاہیے تو اس کا کیا طریقہ کار ہے؟،چیف جسٹس کے ریمارکس بنگلہ دیش میں جنرل ارشاد نے اسلامی تقاضوں کے تحت آئینی ترمیم کی جسے بنگالی سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیدیا ،لوگوں کی سوچ بدلتے وقت کیساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے ترکوں کی مثال موجود ہے ،جسٹس آصف سعید کھوسہ 18ویں آئینی ترمیم کیخلاف مختصر آرڈر میں بنیادی ڈھانچے کے بجائے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا گیا ،جسٹس ثاقب نثار سماعت آج بھی جاری رہے گی

پیر 4 مئی 2015 18:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 04 مئی۔2015ء) سپریم کورٹ نے اٹھارویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت (منگل)تک ملتوی کر دی ہے جبکہ چیف جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دئیے ہیں کہ اگر تبدیلی کی شدت کیساتھ ڈیمانڈ کی جائے کہ ایک سیکولر ریاست ہونی چاہیے تو اس کا کیا طریقہ کار ہے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بنگلہ دیش میں جنرل ارشاد نے اسلامی تقاضوں کے تحت آئینی ترمیم کی جسے بنگالی سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا ،لوگوں کی سوچ بدلتے وقت کیساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے ترکوں کی مثال موجود ہے ۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ترکی اور ایران میں انقلاب آیا تھا ۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کیخلاف مختصر آرڈر میں بنیادی ڈھانچے کے بجائے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا گیا ۔

(جاری ہے)

انھوں نے یہ ریماکس پیر کے روز دیئے ہیں۔مقدمے کی سماعت چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سترہ رکنی فل کورٹ بینچ نے کی ۔سماعت کے آغاز پر مختلف بار ایسوسی ایشنز کے وکیل حامد خان نے اٹھارویں آئینی ترمیم کیخلاف دلائل دیئے ۔

اور کہا کہ پارلیمنٹ کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ترمیم کرے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بنگلہ دیش میں جنرل ارشاد نے اسلامی تقاضوں کے تحت آئینی ترمیم کی جسے بنگالی سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا ،لوگوں کی سوچ بدلتے وقت کیساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے ترکوں کی مثال موجود ہے ۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ترکی اور ایران میں انقلاب آیا تھا ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر تبدیلی کی شدت کیساتھ ڈیمانڈ کی جائے کہ ایک سیکولر ریاست ہونی چاہیے تو اس کا کیا طریقہ کار ہے ۔ایڈوکیٹ حامد خان نے کہا کہ اس کے لیے آئین نئے سرے سے بنانا پڑے گا ،بنیادی تبدیلی کیلئے ریفرنڈم کا ہونا ضروری ہے ۔جسٹس خواجہ نے کہا کہ 1968ء کے حالات و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے 1973ء کا آئین بنایا گیا ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر پولیس یا ایگزیکٹو حکام اختیارات سے تجاوز کریں تو انھیں سزا ملتی ہے تو ہم ججوں کو کیسے چھوٹ دے سکتے ہیں ۔

۔ایڈوکیٹ حامد خان نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری سیاست زدہ ہے کیونکہ وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت کیساتھ دونوں ایوانوں سے چا ر چار نمائندوں چن کر کمیٹی میں شامل کیا جاتا ہے ،آئین کے آرٹیکل 239کی شق پانچ اور چھ آزاد عدلیہ کے اختیارات سے متصادم ہے ۔بعد ازاں سماعت آج منگل تک ملتوی کر دی گئی ۔