جہاز توڑنے کی صنعت پاکستان میں سٹیل اور خام لوہے کے حصول کا سب سے بڑاذریعہ ہے،اگر اس پر توجہ نہ دی گئی اور یورپی یونین کی اس صنعت کے لئے وضع کی گئی گائیڈلائنز پرعملدرآمد نہ کیا گیا تو پاکستان کوبھار ی مالی مالی خسارہ ہو سکتا ہے جس سے صنعت میں سرمایہ کاری اور وابستہ مزدور ں کا روزگا ر متاثر ہوگا

ایس ڈی پی آئی کے زیر اہتمام سیمینار سے مقررین کا خطاب

پیر 4 مئی 2015 17:54

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 04 مئی۔2015ء) جہاز توڑنے کی صنعت پاکستان میں سٹیل اور خام لوہے کے حصول کا سب سے بڑاذریعہ ہے اگر اس پر توجہ نہ دی گئی اور یورپئین یونین کی اس صنعت کے لئے وضع کی گئی گائیڈلائنز پرعملدرآمد نہ کیا گیا تو پاکستان کوبھار ی مالی مالی خسارہ ہو سکتا ہے جس سے اس صنعت میں سرمایہ کاری اور اس سے وابستہ مزدور ں کا روزگار بھی متاثر ہوگا اور غیر معیاری شپ یارڈزکو پابندیوں کا سامنابھی ہو سکتا ہے۔

قوانین سے آگاہی اور عالمی تناظر میں جہاز توڑنے کی صنعت کے تحفظ اورا س سے مزید معاشی فوائد کے حصول پر غور کے لئے تربیتی سیمینار سینٹر فار روول آف لاء کے زیر اہتمام منعقد ہوا جس میں متعلقہ صنعت کی نمایاں شخصیات ،وکلاء اور ماہرین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

سیمینار کا اہتما م ایس ڈی پی آئی اور این جی او شپ بریکنگ فورم برائے وکلاء کے تعاون سے کیا گیا۔

ماجد بشیر نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ یورپئین یونین کے نئے سخت قوانین کی وجہ سے مستقبل میں صرف چین اور ترکی کے ری سائیکلر ہی مستفید ہو سکیں گے اورپاکستان سمیت جنوب اشیاء کے ممالک جو عالمی قوانین پر عملدرآمد میں ناکام رہیں گے وہ اس صنعت کے فوائد سے محروم ہو جائیں گے۔ انہوں نے جہاز توڑنے کی صنعت سے متعلق عالمی قوانین کے حوالے سے پاکستان کے وکلاء کے کردار اور طے شدہ طریقہ کار و گائیڈ لائنز پر روشنی ڈالی ۔

انہوں نے کہ وزیر اعلی بلوچستان اور بلوچستان کے ماحولیاتی تحفظ کے ادارے کو ان خطرات سے آگاہ کیاگیا ہے جو اس صنعت کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی سے متعلق ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ گڈانی میں شپ یارڈ مالکان کو نوٹس جاری کئے جائیں تا کہ وہ ماحولیاتی اور لیبر قوانین کی پابندی کریں۔ ماجد بشیر نے کہا کہ گڈانی کے 68 شپ یارڈز سے 12000 ورکرز کا روزگار وابستہ ہے جس سے حکومت کو سالانہ 5 ارب کا ریوینو ٹیکس کی مد میں حاصل ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ گڈانی میں بیرونی ممالک سے لائے گئے پرانے بحری جہازتوڑے جاتے ہیں اور بھاری مقدار میں ایسا ویسٹ مٹیریل بھی لایا جاتا ہے جو ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہا ہے اس لئے ایسے اقدامات کی اشد ضرورت ہے جس سے ماحولیاتی آلودگی کو روکا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کے قوانین سے جہاز توڑنے کی صنعت دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی ، جو قوانین کی پابندی کریں گے انہیں محفوظ صنعت کا درجہ حاصل ہوگا اور جو اس کی خلاف ورزی کریں گے انہیں غیر معیاری قرار دیا جائے گا۔

انہوں نے کہاکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد ماحولیاتی تحفظ اب صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے اس لئے اس جہاز توڑنے کی صنعت کو تحفظ دینے ، اس عالمی اداروں کے معیار کے مطابق ترقی دینے اور ضروری سہولیات کی فراہمی کیلئے مناسب اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ پاکستان میں اس صنعت کو فروغ حاصل ہو اور اس کے زریعے روزگار اور حکومت کے ریوینومیں میں کمی کے بجائے اضافہ ہو۔ انہوں نے بتایا کہ یورپئین یونین کی طرف سے گائیڈ لائنز اور عالمی قوانین پر پورا اترنے والے شپ یارڈر کی ایک فہرست بھی اگلے سال تک جار ی کر دی جائے گی ۔

متعلقہ عنوان :