ملک میں انتخابات و دیگر معاملات پر توتوجہ دی جاتی ہے مگر تعلیم جیسے اہم شعبے کو نظرانداز کیا جاتا ہے ،مفتی تقی عثمانی

حقیقت میں پاکستان کو ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جو پاکستان کی قومی سلامتی ،ملی وحدت اور نظریاتی تشخص کے مطابق ہو ،شیخ الاسلام جامعۃ الرشید ایک عظیم ادارہ ہے جس نے تعلیم کے شعبے میں اہم خدمات سرانجام دی ہیں ،جامعۃ الرشید کی سالانہ تقریب تقسیم اسناد و انعامات سے صدارتی خطاب

پیر 4 مئی 2015 17:39

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 04 مئی۔2015ء) شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے کہا ہے کہ ملک میں انتخابات اور دیگر معاملات پر توتوجہ دی جاتی ہے لیکن تعلیم جیسے اہم شعبے کو نظرانداز کیا جاتا ہے ۔حقیقت میں پاکستان کو ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جو پاکستان کی قومی سلامتی ،ملی وحدت اور نظریاتی تشخص کے مطابق ہو ۔جامعۃ الرشید نے ایک اعلیٰ مثال قائم کردی ہے ۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے معروف دینی ادارے جامعۃ الرشید کی سالانہ تقریب تقسیم اسناد و انعامات سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کیا ۔تقریب سے وزیر مملکت برائے تعلیم انجینئر محمد بلیغ الرحمن ،مولانا صاحبزادہ فضل رحیم ،مولانا عزیز الرحمن ہزاروی ،مفتی عدنان کاکا خیل ،پروفیسر ڈاکٹر معصوم یاسین زئی ،پروفیسر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری ،تاجر رہنما افتخارہ وہرہ ،اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مولانا امداد اﷲ ،پروفیسر ڈاکٹرسعید الرحمن ،تاجر رہنما زبیر موتی والا ،آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل ،وزیراعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی برائے مذہبی امور ڈاکٹرعبدالقیوم سومرو ،گیلپ آف پاکستان کے سربراہ اعجاز شفیع گیلانی اور دیگر نے بھی خطاب کیا ۔

(جاری ہے)

جبکہ تقریب میں جامعۃ الرشید کے رئیس مفتی عبدالرحمن ،پروفیسر ڈاکٹر خان بہاد مروت ،اقرا کے مولانا مفتی مزمل حسین کاکڑیا ،پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ ،رئیس دارالافتاء جامعۃ الرشید مفتی محمد اور دیگر نے شرکت کی ۔تقریب میں مختلف شعبوں میں فاضل 418طلبہ میں انعامات اور اسناد تقسیم اور دستار بندی کی گئی ،جن میں درس نظامی ،شعبہ کلیۃ شریعہ ،ایم بی اے ،بی بی اے ،بی کام ،بی اے ،تخصص فی الافتاء ،تخصص فی الفقہ والحدیث ،تخصص فی القرات و تحفیظ القرآن ،کلیۃ الدعوۃ ،تجدید کورس ،درسات دینیہ ،عربی لینگویج کورس ،صحافت، انگلش لینگویج کورس ،عربک اینڈ انگلش ٹیچنگ ٹریننگ کورس اور دیگر شعبوں کے فضلاء شامل تھے ۔

مفتی محمد تقی عثمانی نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ بعض لوگوں کو غیر معمولی صلاحیتیں عطا کرتا ہے جس کی بناء پر وہ خاموشی سے اپنی خدمات سرانجام دیتے ہیں اور ان کی خدمات ملت کے لیے فائدہ مند ہوتی ہیں ۔مفتی عبدالرحیم بھی ان ہی میں سے ایک ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جامعۃ الرشید ایک عظیم ادارہ ہے جس نے تعلیم کے شعبے میں اہم خدمات سرانجام دی ہیں ۔نظام تعلیم کسی بھی قوم کی زندگی ،بقاء ،ترقی اور ارتقاء کے لیے بنیاد ہے ۔

دنیا کے تمام وسائل جمع کریں لیکن تعلیم نہ ہو تو یہ وسائل کسی کام کے نہیں ۔آج کے نوجوان کل کا مستقبل ہیں ۔اگر انہیں صحیح طور پر تیار نہیں کیا گیا تو اپنے مستقبل پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے ۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تین مختلف نظام تعلیم ہیں اور تینوں کے درمیان بہت ہی خلیج واقع ہے ۔دینی مدارس ،سرکاری تعلیمی ادارے اور نجی تعلیمی اداروں کے مزاج میں نمایاں فرق ہے ۔

اس وقت پاکستان میں 25ہزار سے زائد دینی مدارس میں 35لاکھ طلباء زیر تعلیم ہیں جو کل آبادی کا معمولی حصہ ہیں اور باقی سارا حصہ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں ہے ۔کسی بھی سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں افراد پیدا کرنے کا بنیادی مقصد دنیا کی دولت ،شہرت ،منصب اور دیگر سہولیات ہیں اور اس سے آگے کا سوچا ہی نہیں جاتا ہے ۔مگر مدارس میں آخرت کو اولیت حاصل ہے اور دنیا کے بارے میں بعد میں سوچا جاتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ لوگ مدارس اور ان سے منسلک لوگوں پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن جو زبان سیاسی رہنما ایک دوسرے کے حوالے سے استعمال کرتے ہیں ایسی زبان شدید اختلاف رکھنے کے باوجود مختلف مکاتب فکر کے علماء ایک دوسرے کے لیے استعمال نہیں کرتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ حکومت اور دانشور طبقہ تعلیم پر سوچے اور نظام تعلیم کی اصلاح کے لیے کوشش کرے ۔اس وقت پاکستان کو مختلف نظام تعلیم کی بجائے متحد نظام تعلیم کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ میرے والد مفتی محمد شفیع عثمانی سے سردار عبدالرب نشتر نے نظام تعلیم کے بارے میں پوچھا تھا تو انہوں نے کہا کہ تھا کہ قیام پاکستان سے قبل مسلمانوں میں تین قسم کے نظام تعلیم تھے ۔ایک کی نمائندگی دارالعلوم دیوبند ،دوسرے کی دارالعلوم ندوۃ العماء اور تیسرا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شامل تھی لیکن ان میں بہت سارے معاملات یکساں تھے ۔

مفتی شفیع عثمانی نے بتایا کہ ہمیں صرف دارالعلوم دیوبند کی طرح خالص مذہبی تعلیم ،ندوۃ العلوم کی طرح صرف دانشور اور ادیب اور نہ ہی علی گڑھ کی طرح عصری علوم کی ضرورت ہے بلکہ ہمیں متحد نظام تعلیم کی ضرورت ہے جو ہمارے تمام نظریاتی ،اخلاقی ،ملی ضروریات کا احاطہ کرے ۔استعمار نے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لیے مختلف نظام تعلیم رائج کیے ۔

اس سے قبل مسلمانوں میں پہلی جماعت سے میٹرک تک تمام علوم پڑھائے جاتے تھے اس کے بعد پھر فنی تعلیم پر توجہ دی جاتی تھی ۔آج یہ صورت حال ہے کہ عصری تعلیم پڑھنے والوں میں سے ایک بڑی تعداد کو سورہ اخلاص تک درست پڑھنی نہیں آتی ہے ۔بدقسمتی یہ ہے کہ ہم قیام پاکستان کے بعد بھی غلامی کے نظام تعلیم سے نہ نکل سکے ۔مدارس کے خلاف پروپیگنڈا غلط ہے یہاں پر تمام تعلیم دی جاتی ہے ۔

جامعۃ الرشید اس حوالے سے ایک مثال ہے اور یہ ایک نمایاں مقام رکھتا ہے ۔اس موقع پر جنرل سیکرٹری پاکستان اکیڈمی آف سائنسز اسلام آباد ڈاکٹر پروفیسر ضابطہ خان شنواری ،مولانا صاحبزادہ فضل الرحمن ،تاجر رہنما افتخار احمد وہرہ ،زبیر موتی والا سمیت مختلف دانشوروں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جامعۃ الرشید کو یونیورسٹی کا درجہ دے ۔اس موقع پر انہوں نے اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔

متعلقہ عنوان :