بد قسمتی سے ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ، بڑے بوڑھے،بچے نوجوان سب ہی مشکل کا شکار ہیں، مقررین

ثقافت کے ذریعے پاکستانی معاشرے کو امن کی طرف لانا ہو گا ۔سیاست وہ کردار ادا نہیں کرسکتی جو ادب،ثقافت اور لکھنے والے کر سکتے ہیں،منعقدہ تین روزہ قومی کانفرنس سے خطاب

ہفتہ 2 مئی 2015 22:29

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 02 مئی۔2015ء)آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقدہ تین روزہ قومی کانفرنس بعنوان ’’ ادب اور اہل قلم کا پر امن معاشرے کے قیام میں کردار‘‘ کے دوسرے روز چار اجلاس ہوئے جن کی صدارت منیر احمد بادیانی،ڈاکٹر اباسین یوسفزئی،عکسی مفتی اور نورا لہدی شاہ نے بالترتیب کی۔ جہاں معاشرے کو پر امن بنانے میں ادب اور ادیبوں کا کردار کے حوالے سے بات کی گئی۔

مقررین میں پاکستان بھر سے آئے ہوئے ادیب و دانشور ڈاکٹر اسحاق سمیجو،عبدالغفور شاد،ڈاکٹر کمال جامڑو، ناصر علی سید، مونس ایاز، ڈاکٹر مسرت کلانچوی، مبین مرزا، امر سندھو،عارف ضیاء، ڈاکٹر وسیمہ شہزاد، نور احمد جھنجھی،ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری، منیر بادنی،اعجاز منگی، ڈاکٹر ریاض مجید، جامی چانڈیو،غلام نبی مغل، احمد جاوید، حکیم بلوچ،شعیب مرزا،ڈاکٹر ایوب شیخ، جمشید دکھی،نذیر لغاری، عمر گل عسکر،ڈاکٹر سعیدہ شفیق میمن اور ڈاکٹر عطش درانی شامل تھے۔

(جاری ہے)

مقررین کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے یہ ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے جس کی وجہ سے بڑے بوڑھے،بچے نوجوان سب ہی مشکل کا شکار ہیں۔اسلام کے نام پر دہشت گردی کی جارہی ہے پاکستان ایک خو بصورت ملک ہے یہاں کے لوگ پڑھے لکھے بھی ہیں اور با شعور بھی لیکن یہ معاشرہ پھر بھی بد امنی کا شکار ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ لوگ ادب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

جب تک کسی معاشرے میں ادب اور ادیب زندہ رہیں گے لوگوں کا رحجان اس طرف رہے گا معاشرہ پر امن رہے گا جہاں ادب سے دوری ہوتی رہے وہاں اسے ہی بد امنی اور مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے منیر احمد بادیانی نے کہا کہ ہمیں پاکستانی زبانوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔جس سے ہمارا ملک ترقی کر ے گا۔ادیب معاشرے میں قیام امن اور دہشت گردی کے خلاف قلم کے ذریعے موثر کردار ادا کر سکتا ہے ہمیں ادیب کی اہمیت میں اضافہ کر نے کی ضرورت ہے۔

دوسرے اجلاس کے صدارتی خطبے میں ڈاکٹر اباسین نے کہا کہ ادیب معاشرے کا اہم فرد ہے اس کی سوچ اور آواز معاشرے کو بلند کرتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں زبانوں پر بھی توجہ دینی چا ہیے جس کے ذریعے ادب کا پیغام قاری تک پہنچتا ہے۔تیسرے اجلاس میں عکسی مفتی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ ہمیں ثقافت کے ذریعے پاکستانی معاشرے کو امن کی طرف لانا ہو گا ۔

سیاست وہ کردار ادا نہیں کرسکتی جو ادب،ثقافت اور لکھنے والے کر سکتے ہیں۔دوسرے روز کے آخری اجلاس کی صدارت نور الہدی شاہ نے کی اور کہا کہ ہمارے یہاں ادب سے دوری اس لئے بڑھتی جارہی ہے کہ ہماری نوجوان نسلیں اس سے شغف نہیں رکھتی اس ضمن میں ہمیں اپنا کردار ادا کر نا ہے اپنے بچوں کی تربیت کر نی ہے ان کے لئے لکھنا ہے ان میں لکھنے کی صلاحیت پیدا کر نی ہے جب تک نئی نسل آگے نہیں بڑھے گی اس وقت معاشرے میں امن پیدا نہیں ہو سکے گا۔

کانفرنس کے دوسرے روز قومی مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں پاکستان بھر کے شعراء کرام نے پاکستان کی مختلف زبانوں میں اپنے کلام پیش کئے جن میں اسحاق سمیجو،احسان دانش، فیاض لطیف،ناصر علی سید،ڈاکٹر ابا سین، عارف ضیاء،گل محمد عسکر،شعیب مرزا ،ریاض مجید ،مسرت کلانچوی، اسلم تاثیر،جمشید دکھی اور ظفر حسین ظفرشامل تھے۔