عدلیہ کی آزادی اوراس کی انتظامیہ سے علیحدگی آئین کا بنیادی خاصہ ہے ٗ جسٹس ثاقب نثار

آئینی اصلاحاتی پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات میں ٹھوس بنیادوں پر بنیادی ڈھانچے کے تصور کو تسلیم کیا تھا ٗ جسٹس آصف سعید آدھے گھنٹے میں ترمیم بغیر بحث کے منظور ہو گئی،73 کے آئین سے پہلے 4 ماہ بحث کی گئی تھی ٗ جسٹس جوادایس خواجہ

منگل 28 اپریل 2015 18:04

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 28اپریل۔2015ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے قرار دیا ہے کہ ہر ملک میں ججز کی تقرری کا اپنا طریقہ ہوتا ہے ٗتقرری کے عمل میں پارلیمنٹ کو شامل کرنے میں کوئی قباحت نہیں جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس ناصر الملک نے کہا ہے کہ اداروں کے درمیان کوئی جنگ ہے نہ ٹکراؤ، دیکھ رہے ہیں کہ آئینی ترامیم کے تحت کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی؟منگل کو چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 17رکنی فل کورٹ نے اٹھارہویں اور اکیسو یں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت کی دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل حامد خان نے کہا کہ امریکہ میں صدارتی اور ہمارے ملک میں پارلیمانی نظام حکومت ہے امریکی آئین عدلیہ آزادی اور اس کی انتظامیہ سے علیحدگی کی ضمانت دیتا ہے جس پر جسٹس ثاقب نثارنے کہاکہ عدلیہ کی آزادی اوراس کی انتظامیہ سے علیحدگی آئین کا بنیادی خاصہ ہے۔

(جاری ہے)

ججز تقرری کے عمل میں پارلیمان بھی شامل ہو تواس میں کیا قباحت ہے جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ ہرملک میں ججز تقرری کے اپنے طریقہ کار ہیں ۔ کیا دوسرے ممالک کے طریقہ کار کو مد نظر رکھ کر پارلیمانی کمیٹی کے کردار کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کیا اس دلیل کی اوپرآئینی ترمیم کو کالعدم قراردیا جا سکتا ہے؟ صرف ججز پرمشتمل کمیٹی کو ہی ججوں کی تقرری کا کلی اختیار کیسے دیا جا سکتا ہے۔

جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ امریکہ میں جج کی تقرری سینیٹ اسمبلی کرتی ہے۔ چیف جسٹس نا صر الملک نے کہا کہ کیا دوسرے ممالک کی عدلیہ کے فیصلوں سے متاثر ہونا ضروری ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق سماعت کے دور ان جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ’’1973ء کے آئین سے رجوع کیا جائے تو ایک ڈھانچہ ظاہر ہوتا ہے جسے ایک بنیادی ڈھانچہ کہا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ آئین کی کوئی شق تحفظ فراہم نہیں کرتی تاہم یہ ڈھانچہ ناقابل فسخ تھا اور اس کو تحفظ دینا اور برقرار رکھنا چاہیے خاص طور پر اس وقت جبکہ لوگوں کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ نے بھی اس بنیادی ڈھانچے کو تسلیم کرلیا ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال کیا کہ ’’کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکا میں عدلیہ کی آزادی محفوظ نہیں ۔‘‘انہوں نے کہا کہ یہ قدر تھی ٗ ڈھانچہ نہیں جو اہم تھا۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کی تقرری کا طریقہ کار ایک ہاتھ میں اختیار دینے کے بجائے کئی ہاتھوں میں دے کر تبدیل کردیا گیا تھا جس کے نتیجے میں آئین میں آرٹیکل 175اے داخل کیا گیا جس کے تحت عدالتی کمیشن کے تصور کے ساتھ ساتھ پارلیمانی کمیٹی متعارف کرائی گئی تھی۔

سینیٹر رضا ربانی کی سربراہی میں آئینی اصلاحات پر پارلیمانی کمیٹی جس نے اٹھارویں ترمیم کا مسودہ تیار کیا تھا کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس کمیٹی کی سفارشات میں ٹھوس بنیادوں پر بنیادی ڈھانچے کے تصور کو تسلیم کیا تھا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ امریکی سینیٹ نہ صرف ججوں کی تقرری کرتی ہے بلکہ مسلح افواج کے سربراہان ٗاٹارنی جنرل اور بیوروکریسی کا تقرر بھی کرتی ہے ’’ہمیں بھی اسی طرح کا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔

‘‘انہوں نے کہا کہ ’’ایک کا انتخاب نہیں کرسکتے۔‘‘حال ہی میں اوباما انتظامیہ کی جانب سے لوریٹا لائنچ کی بطور امریکی اٹارنی جنرل تقرری کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ایک رنگدار خاتون کا انتخاب سینیٹ کی طویل سماعت کے بعد کیا گیا تھابڑی تعداد میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنز کی نمائندگی کرتے ہوئے حامد خان نے دورانِ سماعت کہا کہ وہ عدالتی کمیشن کی تشکیل نو سے مطمئن ہیں، جس نے ججوں کی تقرری انیسویں ترمیم کے تحت کی تھی تاہم وہ پارلیمانی کمیٹی کے وجود کی وسعت کیلئے لڑیں گے جس نے عدالتی کمیشن کی سفارشات کی منظوری دی تھی۔

چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ کیا وہ ججوں کی تقرری کے طریقہ کار سے پارلیمانی کمیٹی کا مکمل اخراج چاہتے ہیں اور اگر ان کا جواب مثبت میں ہے تو فاضل وکیل کو وضاحت کرنی چاہیے کہ یہ کمیٹی عدلیہ کی آزادی کی کس طرح خلاف ورزی کرتی ہے، اور آئین کی ایک ترمیم کس طرح اعلیٰ عدالت سے ٹکراسکتی ہے۔سماعت کے دور ان جسٹس ثاقب نثار نے حامد خان سے استفسار کیا کہ اگر پارلیمانی کمیٹی کو جوڈیشل کمیشن کا حصہ بنا دیا جائے تو پھر آپ کو قبول ہو گا۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آدھے گھنٹے میں ترمیم بغیر بحث کے منظور ہو گئی،73 کے آئین سے پہلے 4 ماہ بحث کی گئی تھی۔لاہور ہائی کورٹ بار کے وکیل حامد خان کے دلائل پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس بات سے کسی کو انکار نہیں عدلیہ کی آزادی اور انتظامیہ سے علیحدگی آئین کا اہم نکتہ ہے جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم آئین میں ایسی ترامیم کیوں نہیں لاتے جو ہمارے حالات کے مطابق ہو، چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا ججز پارلیمانی کمیٹی عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی تقسیم کے خلاف ہے، یہ بھی بتایا جائے کہ ججز تقرری پارلیمانی کمیٹی آئین کی کس شق کے خلاف ہے۔

ہر ملک میں ججز کی تقرری کا طریقہ کار مختلف ہے ترمیم ہوگی تو مقدمات بھی عدالتوں میں آئیں گے۔ دیکھ رہے ہیں کہ ترمیم کے تحت کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی ہمارا دوسرے ممالک کی عدالتوں سے متاثر ہونا ضروری نہیں۔ حامد خان کے بعد بیرسٹر ظفر اﷲ نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ نے 18ویں ترمیم میں عبوری حکم دیا جس کی وجہ سے پارلیمنٹ نے 19ویں ترمیم منظور کی جس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عدالت نے 19 ویں ترمیم جبراً منظور کرائی، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عبوری حکومت میں پارلیمنٹ کو ہدایت نہیں تجویز دی تھی، بیرسٹر ظفراﷲ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے عبوری حکم کے باعث اداروں میں جنگ ہوئی جس پر چیف جسٹس نے ہوئے کہا کہ اداروں میں کوئی جنگ ہے نہ ٹکراؤ۔

دیکھ رہے ہیں کہ آئینی ترامیم کے تحت کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی؟سماعت بدھ کو پھر ہوگی ۔

متعلقہ عنوان :