امید ہے وفاقی بجٹ 2015-16ء کا محور توانائی کا بحران ہوگا جو معاشی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے‘ لاہور چیمبر

توانائی بحران کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان کاروباری طبقے کو ہوا ،بحران حل کرنے کیلئے حکومت کو تاجر برادری کی تجاویز پر عمل درآمد کرنا چاہیے وفاقی بجٹ میں کالاباغ ڈیم سمیت بڑے آبی ذخائر کیلئے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کیے جائیں‘ اعجاز اے ممتاز کا ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے خطاب

منگل 28 اپریل 2015 17:07

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 28اپریل۔2015ء) لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے امید ظاہر کی ہے کہ وفاقی بجٹ 2015-16ء کا محور توانائی کا بحران ہوگا جو معاشی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ لاہور چیمبر میں ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے لاہور چیمبر کے صدر اعجاز اے ممتاز نے کہا کہ توانائی کا بحران حل کرنے کے لیے حکومت کو تاجر برادری کی تجاویز پر عمل درآمد کرنا چاہیے کیونکہ بحران کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان کاروباری طبقے کو ہوا ہے۔

اجلاس سے لاہور چیمبرکے سینئر نائب صدر میاں نعمان کبیر، نائب صدر سید محمود غزنوی اور ایگزیکٹو کمیٹی اراکین نے بھی خطاب کیا۔ اعجاز اے ممتاز نے کہا کہ صنعت و تجارت کو توانائی کی فراہمی بنگلہ دیش حکومت کی اوّلین ترجیح ہے جس کی وجہ سے ان کی برآمدات آج دنیا کے بہت سے ممالک سے زیادہ ہوچکی ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ توانائی کی قلت پر قابو پانے کے لیے پالیسی میکرز آبی ذخائر کی تعمیراور تھرکول سے توانائی کے حصول موزوں فنڈز مختص کرے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی بجٹ میں کالاباغ ڈیم سمیت بڑے آبی ذخائر کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں ہائیڈل پاور پراجیکٹس کے لیے کم کُل بجٹ کے کم از کم دس فیصد کے مساوی رقم مختص کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مہنگے تھرمل ذرائع پر انحصار سے صنعتوں کی پیداواری لاگت اور درآمدی بل دونوں بڑھتے جارہے ہیں لہذا ہائیڈل بجلی کی پیداوار بڑھانا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ تھر کول میں 185ارب ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں جن کے ذریعے سو سال تک ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جو تیز رفتار معاشی نشوونما کے لیے بہت ضروری ہے۔ اعجاز اے ممتاز نے کہا کہ گذشتہ کچھ عرصہ کے دوران غیرملکی سرمایہ کاری میں کمی بہت تشویشناک ہے، سرمایہ کاری کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے لہذا حکومت نہ صرف غیر ملکی بلکہ مقامی سرمایہ کاروں کااعتماد بحال کرنے کے لیے خصوصی اقدامات اٹھائے اور وفاقی بجٹ میں مراعات کا اعلان کرے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ، کوئلے، توانائی، زراعت، لائیوسٹاک، ٹیکسٹائل اور فارماسیوٹیکل کے شعبوں میں غیرملکی سرمایہ کاری کی وسیع گنجائش ہے لیکن بدقسمتی سے فنڈز کا فقدان مارکیٹنگ کی راہ میں آڑے آرہا ہے۔ اعجاز اے ممتازنے کہا کہ سمگلنگ کی حوصلہ شکنی کے لیے پالیسی میکرز کو اُن اشیاء پر ڈیوٹیاں اور ٹیکس کم کرنے چاہئیں جو سمگل ہورہی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پلاسٹک مولڈنگ کمپاؤنڈ، الیکٹرانکس، کیمیکل، فیبرک، ٹائراور ٹیوب کی سمگلنگ روکنے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ محاصل میں اضافے اور موجودہ ٹیکس دہندگان کو ریلیف دینے کے لیے اُن شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے جو ٹیکس ادا نہیں کررہے ۔