سپریم کورٹ میں اٹھارویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کل تک ملتوی

منگل 28 اپریل 2015 15:38

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 28اپریل۔2015ء) سپریم کورٹ میں اٹھارویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اداروں میں کوئی جنگ ہے نہ ٹکراؤ‘ اٹھارویں ترمیم سے متعلق دلائل دیئے جائیں‘ دیکھ رہے ہیں ترمیم کے تحت کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی تو نہیں ہورہی‘ ہمارا دوسرے ممالک کی عدالتوں سے متاثر ہونا ضروری نہیں‘ ہر ملک میں ججز کی تقرری کا طریقہ کار مختلف ہے‘ ترامیم ہوں گی تو مقدمات بھی عدالتوں میں آئیں گے‘ بیرسٹر ظفر الله نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اٹھارویں ترمیم میں عبوری حکم دیا جس کے باعث پارلیمنٹ نے 19ویں ترمیم منظور کی‘ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عدالت نے 19ویں ترمیم جبراً منظور کرائی‘پارلیمنٹ کوئی غیر نہیں اگر مشورہ کرلیا جائے گا تو کیا قباحت ہے‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ عبوری حکم میں پارلیمنٹ کو ہدایت نہیں تجویز دی تھی‘ بیرسٹر ظفر الله نے کہا کہ سپریم کورٹ کے عبوری حکم کے باعث اداروں میں جنگ ہوئی ‘ اٹھارویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت بدھ تک ملتوی کردی گئی۔

(جاری ہے)

منگل کو سپریم کورٹ میں اٹھارویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سترہ رکنی فل بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت میں لاہور ہائی کورٹ بار کے وکیل حامد خان نے دلائل دیئے کہ امریکہ میں صدارتی نظام حکومت ہے جبکہ پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت ہے جس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس بات سے کسی کو انکار نہیں عدلیہ کی آزادی اور انتظامیہ سے علیحدگی آئین کا اہم نکتہ ہے۔

آپ کے دلائل اس پر بات پر ہونے چاہئیں کہ کیا اس بنیاد پر کسی آئینی ترمیم کو ختم کیا جاسکتاہے جس پر حامد خان نے کہا کہ میں اس بات پر دلائل دونگا کہ ججز تقرری کے لئے پارلیمانی کمیٹی کی ضرورت نہیں۔امریکہ میں عدلیہ کی آزادی اور انتظامیہ سے علیحدگی زیادہ مضبوط ہے جس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اگرپارلیمانی کمیٹی کو جوڈیشل کمیشن کا حصہ بنا دیا جائے تو پھر آپ کو قبول ہوگا کیا اس صورت میں اختیارات کی تقسیم متاثر نہیں ہوگی جس پر حامد خان نے کہا کہ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا اس صورت میں دیکھنا ہوگا کہ نمائندگی کا تناسب کیا ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے سماعت میں ریمارکس دیئے کہ آدھے گھنٹے میں اکیسویں ترمیم بغیر بحث کے منظور ہوگئی دسمبر 1972ء سے اپریل 1973 تک ایک آئینی ترمیم کے لئے چار ماہ بحث کی گئی تھی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ہماری اپنی تاریخ‘ اپنا آئین اور اپنی روایات ہیں کیا بحث نہ ہونے کی بنیاد پر آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ہم آئین میں ایسی ترامیم کیوں نہیں لاتے جو ہمارے حالات کے مطابق ہو۔ جدسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے پانچ اہم فیصلوں کو آئین کے بنیادی ڈھانچے کے لئے فالو نہیں کیا گیا تھا ‘ جسٹس حمود الرحمن کے زمانے میں آئین کے بنیادی ڈھانچے پر بحث بھی ہوئی چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا ججز پارلیمانی کمیٹی عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی تقسیم کے خلاف ہے یہ بھی بتایا جائے کہ ججز تقرری پارلیمانی کمیٹی آئین کی کس شق کے خلاف ہے؟ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر بیشتر ممالک ایک طریقہ کار اختیار کریں تو کیا پاکستانی پارلیمنٹ بھی وہی طریقہ اختیار کرے ؟ جس پر حامد خان نے کہا کہ یہ ضروری نہیں جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کیا پارلیمنٹ عوام کی نمائندگی نہیں کرتی‘ پارلیمنٹ کوئی غیر نہیں اگر مشورہ کرلیا جائے گا تو کیا قباحت ہے۔

چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہر ملک میں ججز کی تقرری کا طریقہ کار مختلف ہے ترمیم ہوگی تو مقدمات بھی عدالتوں میں آئیں گے۔ کیا ہم اس بنیاد پر آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دیدیں۔ حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جاننا چاہتا ہوں اتنے عرصے بعد پارلیمانی کمیٹی بنانے کا خیال کیوں آیا‘ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے ججز کی نامزدگی کا اختیار لینے سے مسائل ہوتے ہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے سفارشات مرتب کی ہیں ججز تقرریوں کے عمل میں سیاست کا عمل دخل درست نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دیکھ رہے ہیں ترمیم کے تحت کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی ہمارا دوسرے ممالک کی عدالتوں سے متاثر ہونا ضروری نہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی آزادی کا تصور طے ہوچکا ہے معاملہ پارلیمان کے اختیار کا ہے۔

جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمانی سیکرٹری صرف ججز تقرری کے عمل میں کیوں شامل ہوتے ہیں اس سے تو یہ سسٹم ہوجائے گا کہ دو ججز تمہارے اور تین ہمارے اس طرح سیاسی جماعتوں کے پولیٹیکل کے ونگ بن جاتے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ قانون سیاستدان بناتے ہیں پھر سیاست دانوں پر بداعتمادی کیوں کی جاتی ہے۔ قانون پارلیمنٹ بناتی ہے پھر اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے کمیٹی کسی جج کے تقرر پر تحفظات کا اظہار کرے تو کمیشن جائزہ لے سکتا ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ تشویش کی بات تو تب ہوگی جب انتظامیہ اور عدلیہ ہاتھ ملا لیں۔ بیرسٹر ظفر الله نے سماعت میں کہا کہ سپریم کورٹ نے اٹھارویں ترمیم میں عبوری حکم دیا عبوری حکم کے باعث پارلیمنٹ نے 19ویں ترمیم منظور کی جس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عدالت نے 19 ویں ترمیم جبراً منظور کرائی جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ عبوری حکومت میں پارلیمنٹ کو ہدایت نہیں تجویز دی تھی۔ بیرسٹر ظفرالله نے کہا کہ سپریم کورٹ کے عبوری حکم کے باعث اداروں میں جنگ ہوئی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اداروں میں کوئی جنگ ہے نہ ٹکراؤ آپ یہاں اٹھارویں ترمیم سے متعلق دلائل دیں کیس کی مزید سماعت بدھ تک ملتوی کردی گی۔

متعلقہ عنوان :