ہرملک میں ججز کی تقرری کا اپناطریقہ ہوتا ہے،تقرری کے عمل میں پارلیمنٹ کو شامل کرنے میں کوئی قباحت نہیں ‘ سپریم کورٹ

منگل 28 اپریل 2015 13:31

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 28اپریل۔2015ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے قرار دیا ہے کہ ہر ملک میں ججز کی تقرری کا اپنا طریقہ ہوتا ہے ‘تقرری کے عمل میں پارلیمنٹ کو شامل کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ منگل کو چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 17رکنی فل کورٹ نے اٹھارہویں اور اکیسو یں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت کی دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل حامد خان نے کہا کہ امریکہ میں صدارتی، ہمارے ملک میں پارلیمانی نظام حکومت ہے۔

امریکی آئین عدلیہ آزادی اور اس کی انتظامیہ سے علیحدگی کی ضمانت دیتا ہے۔ جسٹس ثاقب نثارنے کہاکہ عدلیہ کی آزادی اوراس کی انتظامیہ سے علیحدگی آئین کا بنیادی خاصہ ہے۔ ججز تقرری کے عمل میں پارلیمان بھی شامل ہو تواس میں کیا قباحت ہے، جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ ہرملک میں ججز تقرری کے اپنے طریقہ کار ہیں ۔

(جاری ہے)

کیا دوسرے ممالک کے طریقہ کار کو مد نظر رکھ کر پارلیمانی کمیٹی کے کردار کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کیا اس دلیل کیاوپرآئینی ترمیم کو کالعدم قراردیا جا سکتا ہے؟ صرف ججز پرمشتمل کمیٹی کو ہی ججوں کی تقرری کا کلی اختیار کیسے دیا جا سکتا ہے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ امریکہ میں جج کی تقرری سینیٹ اسمبلی کرتی ہے۔ چیف جسٹس نا صر الملک نے کہا کہ کیا دوسرے ممالک کی عدلیہ کے فیصلوں سے متاثر ہونا ضروری ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق سماعت کے دور ان جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ”1973ء کے آئین سے رجوع کیا جائے تو ایک ڈھانچہ ظاہر ہوتا ہے، جسے ایک بنیادی ڈھانچہ کہا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ آئین کی کوئی شق تحفظ فراہم نہیں کرتی تاہم یہ ڈھانچہ ناقابل فسخ تھا اور اس کو تحفظ دینا اور برقرار رکھنا چاہیے، خاص طور پر اس وقت جبکہ لوگوں کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ نے بھی اس بنیادی ڈھانچے کو تسلیم کرلیا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال کیا کہ ”کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکا میں عدلیہ کی آزادی محفوظ نہیں ۔“انہوں نے کہا کہ یہ قدر تھی ‘ ڈھانچہ نہیں جو اہم تھا۔

انہوں نے کہا کہ ججوں کی تقرری کا طریقہ کار ایک ہاتھ میں اختیار دینے کے بجائے کئی ہاتھوں میں دے کر تبدیل کردیا گیا تھا جس کے نتیجے میں آئین میں آرٹیکل 175اے داخل کیا گیا جس کے تحت عدالتی کمیشن کے تصور کے ساتھ ساتھ پارلیمانی کمیٹی متعارف کرائی گئی تھی۔رضا ربانی کی سربراہی میں آئینی اصلاحات پر پارلیمانی کمیٹی جس نے اٹھارویں ترمیم کا مسودہ تیار کیا تھا، کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس کمیٹی کی سفارشات میں ٹھوس بنیادوں پر بنیادی ڈھانچے کے تصور کو تسلیم کیا تھا۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ امریکی سینیٹ ناصر ججوں کی تقرری کرتی ہے، بلکہ مسلح افواج کے سربراہان، اٹارنی جنرل اور بیوروکریسی کا تقرر بھی کرتی ہے، اور کہا کہ ”ہمیں بھی اسی طرح کا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔“انہوں نے کہا کہ ”ایک کا انتخاب نہیں کرسکتے۔“حال ہی میں اوباما انتظامیہ کی جانب سے لوریٹا لائنچ کی بطور امریکی اٹارنی جنرل تقرری کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ایک رنگدار خاتون کا انتخاب سینیٹ کی طویل سماعت کے بعد کیا گیا تھا۔

بڑی تعداد میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنز کی نمائندگی کرتے ہوئے حامد خان نے دورانِ سماعت کہا کہ وہ عدالتی کمیشن کی تشکیل نو سے مطمئن ہیں، جس نے ججوں کی تقرری انیسویں ترمیم کے تحت کی تھی تاہم وہ پارلیمانی کمیٹی کے وجود کی وسعت کیلئے لڑیں گے جس نے عدالتی کمیشن کی سفارشات کی منظوری دی تھی۔چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ کیا وہ ججوں کی تقرری کے طریقہ کار سے پارلیمانی کمیٹی کا مکمل اخراج چاہتے ہیں اور اگر ان کا جواب مثبت میں ہے تو فاضل وکیل کو وضاحت کرنی چاہیے کہ یہ کمیٹی عدلیہ کی آزادی کی کس طرح خلاف ورزی کرتی ہے، اور آئین کی ایک ترمیم کس طرح اعلیٰ عدالت سے ٹکراسکتی ہے۔

متعلقہ عنوان :