کراچی چیمبر آف کامرس ایند انڈسٹری کی جانب سے پاکستان کی سی فوڈ زایکسپورٹ کرنے کے سلسلے میں تقریب کاانعقاد

پیر 27 اپریل 2015 22:15

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 27اپریل۔2015ء) کراچی چیمبر آف کامرس ایند انڈسٹری کی جانب سے پاکستان کی سی فوڈ زایکسپورٹ کرنے کے سلسلے میں ایک تقریب کے سی سی آئی میں منعقد ہوئی، مہمان خصوصی حکومت سندھ کے لائیو اسٹاک اینڈ فشریز کے صوبائی وزیرجام خان شورو نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سمندر کے اندر زرخیز سی فوڈز موجود ہے۔اس انڈسٹری کو فروغ دیاجائے تو یہ صنعت پاکستان کی جانب زرمباد لہ کی ترسیلات میں اضافہ کرسکتی ہے اور ملک کے ذر مبادلہ کے ذخائر میں بھاری اضافہ ہوسکتا ہے۔

کراچی چیمبر سے وابسطہ کاروباری افراد پاکستان کی ٹیکس کی صورت میں جو روینیودیتے ہیں، اس سے پورا ملک چلتا ہے۔ صنعتکاروں کو چاہیئے کہ وہ سی فوڈز انڈسٹری کی صنعت میں سرمایہ کاری کریں ۔

(جاری ہے)

انہون نے کہا کہ ماضی میں کاروباری حضرات کراچی فش ہاربرپر آنے اور جانے سے ڈرتے تھے۔حکومت سندھ کے اقدامات سے کراچی کا امن بحال ہوا ہے۔ 2008ء میں یورپی یونین کی پابندی عائد ہونے کے بعد حکومت پاکستان نے کسی قسم کا تعاون نہیں کیا۔

حکومت سندھ نے فلیک آئیس فیکٹری اور فائبر باسکٹ بنانے کی فیکٹری قائم کروا کر انڈسٹری کو فروغ دینے کے لئے ایک قدم آگے بڑھایا ہے۔ اس سے دنیا کے مختلف ممالک کا پاکستان کی سی فوڈز پر اعتماد بحال ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کی پابندی عائد کروانے میں ملک ہی کے چند بلیک میلر صنعتکار ملوث تھے۔ ان چند لوگوں نے فلیک آئیس کے لیئے دی گئی جگہ پر اپنی فیکٹری لگادی، اس سلسلے کو ختم کرنے کے لیئے جب حکومت سندھ نے ایکشن لیا تو انہوں نے کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کرلیا۔

پاکستانی سی فوڈز کی ایکسپورٹ 300ملین ڈالر پر مشتمل ہے۔ مختلف پروسیسنگ پلانٹس کے مالکان ماہی گیروں کو ایڈوانس کے طور پر رقم دے کر ان سے بولو گجو جال بنواکر مچھلی کے بچوں کا شکار کرواتے ہیں اور فیڈ بناتے ہیں۔ مچھلی کی نسل کشی کرکے ایکسپورٹر فیڈ کو بھی ایکسپورٹر کررہے ہیں۔ دنیا بھر میں کہیں بھی اس طرح نہیں ہوتا۔ جام خان شورو نے کہا کہ ہم سندھ اسمبلی میں نئی قانون سازی کریں گے تاکہ مچھلی اور سمندر کو نقصان پہنچانے والے افراداور گروہوں کو قانون کے شکنجے میں جکڑا جا سکے۔

ہم سندھ کی آبی حیات کی نشل کشی کرنے کے ہر گز اجازت نہیں دیں گے، اس طرح کا غیر قانونی اور غیر انسانی کاروبار کرنے والے ٹرالر مالکان اور فیکٹری مالکان کے خلاف اقدام لے کر ان کے ٹرالرزاور فیکٹریوں کو ضبط کیا جائے گا۔مچھلی کے کاروبار سے وابسطہ افراد نے ٹرالر ایسوسی ایشن بنا کر خود کو ایک مافیا بانیا ہوا ہے۔ حکومت ان کے خلاف جب بھی ایکشن لیتی ہے تو یہ مافیاعدالتوں کی مدد سے اپنے ناجائز مفادات کا تحفظ حاصل کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب مچھلی کے کئی اقسام نایاب ہوگئی ہیں۔ انہون نے کہا کہ 12لاکھ ماہی گیر ان مافیاؤں کی وجہ سے ترقی نہیں کررہے، حکومت ان مافیاؤں کے خلاف اقدامات لے گی۔ اس موقعے پر فشرمینز کوآپریٹو سوسائٹی کے قائم مقام چیئرمین سلطان قمر صدیقی نے کہا کہ انڈسٹری کی آلودگی سے مچھلی کی افزائش نسل کو بہت نقصان ہورہا ہے، نیٹ جالوں سے چھوٹی مچھلی کا شکار ہونے کی وجہ سے سمندرمیں مچھلی نایاب ہوتی جارہی ہے۔

قانون پر عمل درآمد کے لیئے فوج، رینجر سمیت دیگر اداروں سے مدد لی جائے گی۔ کراچی فش ہاربر کے اطراف سے جرائم پیشہ عناصر کا پاک فوج اور رینجرز نے صفایا کردیا ہے۔ جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ سلطان قمر صدیقی نے کہا کہ ماہی گیروں کے بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں اہم اقدامات کررہے ہیں۔ لکڑی کی بوٹس کے بجائے فائبر بوٹس پر کام کررہے ہیں، جس سے مچھلی اور جھینگے کے شکار پر آنے والے اخراجات میں کمی واقع ہوگی۔

انہون نے مزید کہا کہ ماہی گیر سرکریک کی طرف شکار کے لیئے اس لیئے جاتے ہیں کہ وہاں ماہی گیروں کو زیادہ مقدار میں مچھلی اور جھینگا شکار کے ذریعے ملتا ہے۔ انہون نے مزید کہا کہ پاکستانی صنعتکاروں کو فش کی صنعت مین زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرکے فش کو ایکسپورٹ کریں تو ایف سی ایس کی جانب سے مکمل تعاون اور سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ سندھ کی سی فوڈز انڈسٹری کی ترقی کے لیئے وفاقی حکومت کسی قسم کی مدد نہیں کرتی، سمندر سندھ کے لیئے قدرت کا ایک تحفہ ہے۔

پنجاب کوقدرت نے اگر سمندر نہیں دیا تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔ وفاق کو چاہیے کہ سمندر کے خزانے کی ترقی کے لیئے آگے بڑھے۔ ۔ اس موقعے پر کراچی چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر افتخار وہڑا نے کہا کہ سندھ کی معیشت کے لیئے فشری ایک بہت بڑا خزانہ ہے۔ اس خزانے سے فوائد حاصل کرنے کے لیئے بہتر سے بہتر پالیسی کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے ماہی گیروں کو خوشحال کرنے کے لیئے فشنگ انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرنے کے لیئے ہم تیار ہیں۔ اس موقعے پر کے سی سی آئی کے محمد اسمائیل ، اے کیو خلیل ، آغا شہاب، خلیل احمد، ناصر محمود ، محمد ادریس اور ایف سی ایس کے ڈائریکٹڑ ابوذر ماڑی والا، محمد خان چاچڑ، سلیمان سندھی، حمید بھٹو و دیگر بھی موجود تھے۔

متعلقہ عنوان :