کشمیر کشمیر یوں کا ہے ، حق خودارادیت کے غلط معنوں نے تنازیہ کشمیرکو پیچیدہ بنا رکھا ہے،سینیٹرافراسیاب خٹک

مسئلہ کشمیر کے باعث پیداہونے والی پاک بھارت کشیدگی کا فائدہ دونوں ملکوں کی انتہا پسند قوتیں اٹھارہی ہیں ، مودی حکومت انتہا پسندوں کی نمائندہ ہے،دوستانہ تعلقات استوار کرنا ناگزیر ہے عالمی برادری کو کشمیر یوں کوان کا بنیادی حق خودادیت دلانا چاہیے، پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے، ’’ تنازعہ کشمیر؛ پاکستان بھارت تعلقات اوربڑھتی ہوئی انتہا پسندیـ‘‘سے مقررین کاخطاب

پیر 27 اپریل 2015 21:30

راولپنڈی ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 27اپریل۔2015ء) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما سنیٹر افرا سیاب خٹک نے کہا ہے کہ کشمیر کشمیر یوں کا ہے ، حق خودارادیت کے غلط معنوں نے تنازیہ کشمیرکو پیچیدہ بنا رکھا ہے ، مسئلہ کشمیر کے باعث پیداہونے والی پاک بھارت کشیدگی کا فائدہ دونوں ملکوں کی انتہا پسند قوتیں اٹھارہی ہیں ، جہاد کشمیر کے نام پر مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچایا گیا ،کشمیر میں قبائلی لشکر کشی انگریز سامراج کی سازش تھی ان کو خدشہ تھا کہ کہیں پختون اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کردیں ، اس لئے انہوں نے قبائلیوں کو ورغلا کہ کشمیر میں جہاد فرض ہے اور وہاں جاکر جہاد کریں عبدالقیوم خان کی قیادت میں کشمیر میں لشکر کشی سازش کا حصہ تھا ، انہوں نے کہا کہ حق خود ارادیت کے معنی کسی ملک کے ساتھ الحاق نہیں ہوتا ،کشمیر کشمیریوں کا ہے اور ان کے پیدائشی حق ہے کہ وہ کس طرح رہنا چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پریس کلب راولپنڈی میں منعقدہ متحدہ کشمیر پیپلزنیشنل پارٹی کے زیر اہتمام سیمینار بعنوان ’’ تنازعہ کشمیر؛ پاکستان بھارت تعلقات اوربڑھتی ہوئی انتہا پسندیــ‘ سے بحیثیت مہمان خصوصی خطا ب کرتے ہوئے کیا ، سمینار سے سرائیکی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر عبدالمجید کانجو، یو کے پی این پی کی مرکزی سنیئر وائس چیئر پرسن نائیلہ خانین ، نیشنل عوامی پارٹی کے مرکزی صدر پروفیسر خلیق ، مرکزی سکرٹری جنرل یو کے پی این پی طاہر شاہ گردیزی ، مرکزی چیف آرگنائز یو کے پی این پی پروفیسر رفیق بھٹی، گلگت بلتستان تھنکر فورم کے صدر نادر حسن خان ، اپنا کے سیکرٹری جنرل یاسین انجم ، عوامی ورکرپارٹی کے مرکزی ترجمان نثار شاہ ایڈووکیٹ ، اپنا کے سابق مرکزی صدر اظہر کاشر ، یو کے پی این پی نارتھ امریکہ کے صدر رشید یوسف ایڈووکیٹ ،عوامی ورکر پارٹی پنجاب زون کے صدر ڈاکٹر عاصم سجاد ، یو کے پی این کے رہنماؤں افریز شاہین ، سردار جلیل خان ، اسد نواز ،سردار آفتاب ،عاصمہ ملک ،سردارالطاف ، ڈوگرہ ذوالفقار ملک ،کامریڈ صغیر ، ،کامریڈ عمران خوشحال راجہ ، سمیت دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا ۔

سٹیج سیکرٹری کے فرائض عاصمہ ملک نے انجام دئیے ، افرا سیاب خٹک نے کہا کہ ، پاک بھارت کشیدگی حق خود اردیت کے غلط معنی نکالنے کی وجہ سے ہے ، اور اس کا فائدہ پاکستان اور بھارت کی انتہا پسند قوتیں بھی اٹھاتی ہیں ، انہوں نے کہا کہ بھارت میں مودی حکومت انتہا پسندوں کی نمائندہ ہے ، جس کا کہنا ہے کہ برصغیر کی ایک ہزار سالہ تاریخ کا کوئی وجود ہی نہیں ہے یہ انتہائی نامعقول بات ہے ۔

، انہوں نے کہا کہ اسی طرح جب ہم پاکستان میں بھارت کو بڑا پڑوسی ملک کہتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ آپ کا ریاضی غلط ہے ، بھارت اور پاکستان کی آبادی میں ایک اور سات کے تناسب کا فرق ہے ، اس پر یہ تاویل پیش کی جاتی ہے کہ چونکہ ایک مسلمان 10ہندووں پر بھاری ہوتا ہے اس لئے ہم بڑے ہیں ، افراء سیاب خٹک نے کہا کہ انہی وجوہات کی بناء پر پاک بھارت تعلقات سدھر نہیں رہے ہیں جبکہ ہندوستان ہمارا بڑا پڑوسی ملک ہے اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنا ناگزیر ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاک بھارت کشیدگی کا فائدہ پاکستان اور بھارت کی انتہا پسند قوتیں اٹھا رہی ہیں ، انہوں نے کہا کہ خطے میں امریکی سامراج نے کمیونزم کا راستہ روکنے کے لئے انتہا پسندی کوفروغ دیا اس عمل میں برطانیہ اور سعودی عرب بھی برابر کے شریک ہیں ، انہوں نے کہا کہ جب تک ان قوتوں کو انتہا پسندو ں کی ضرورت تھی انہوں نے اسٹریجک مقاصد کے لئے ان کو گلے لگایا ، اور جب ان کے ضرورت ختم ہوئی تو ان کو خلاف ہوگئے ہیں ، انہوں نے کہا کہ انتہا پسندی کے خلاف جنگ خطے کے مفاد میں ہے ، اس جنگ میں ہمارے 800 سے زائد کارکن شہید ہو چکے ہیں ، جن میں ممبران قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی شامل ہیں ، افرا سیاب خٹک نے کہا کہ کمیونزم کے خلاف گریٹ گیم کا مرکز فاٹا کو بنا یا گیا اور دنیا بھر سے دہشت گردوں کو یہاں جمع کیا گیا ، انہوں نے کہا پاکستان میں پنجاب کور علاقہ جبکہ باقی علاقوں کو ضمنی سمجھا جاتا ہے ،۔

خیبر پختوان خواہ کے علاقہ فاٹا میں دہشت گردوں کے خلاف لڑائی شروع کر نے یا نہ کرنے کا تماشا لگا رہا ،۔اگر یہ دہشت گرد فیصل آباد یا گوجرانوالہ میں ہوتے تو حکمران ان کے خلاف ایٹم بم استعمال کرنے سے بھی گریز نہ کرتے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے شہری ہیں سبجیکٹ نہیں ، ہم نے سرزمین خیرات سے نہیں لی ، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے ، 18ترمیم کی منظوری جمہوری تحریک کی جدوجہد کا ثمر ہے ، اگر ہم اپنے روئیے جمہوری رکھیں تو دہشت گردی کے عفریت سے نجات پا لیں گے ۔

انہوں نے کہا گلگت بلتستان کے ترقی پسند رہنما بابا جان پر قائم جعلی مقدمات کی شدید الفاط میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مقدمات بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں ۔ انہوں نے کہا آزادکشمیر میں بھی انسانی حقوق کی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے،۔ہم عوامی حقوق کی جدوجہد میں کشمیر ی عوام کے ساتھ ہیں ، انہوں نے کہا کہ جہادکشمیر کے نام ہر مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچایا گیا ،۔

کشمیر یوں کی جدوجہد آزادی جائز اور برحق ہے اور عالمی برادری کو کشمیر یوں کوان کا بنیادی حق خودادیت دلانا چاہیے ۔ سرائیکی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر عبدالمجید کانجو نے کہا کہ آزادکشمیر ، سری نگر اور گلگت بلتستان کی سیاسی قیادت مل بیٹھ کر مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرے ، سرائیکی عوام کشمیر یوں کی قومی آزادی کی جدوجہد کی مکمل حمایت کرتے ہیں ، یو کے پی این پی کی مرکزی سنیئر وائس چیئر پرسن نائیلہ خانین نے کہا کہ مسئلہ کشمیر اور کشمیر کو پاکستان کی دائیں بازوں کی قوتوں اور پاکستان اسٹبلشمنٹ نے مذہبی رنگ دے کر اپنی ملکیت بنا رکھا ہے۔

پاکستان کی جمہوری قوتوں نے بالعموم اور ترقی پسند بائییں بازوں کی قوتوں نے کشمیر کے مسئلے کو کبھی بھی قومی سوال کے طور پر نہ تو اذخود اٹھایا ہے اور نہ ہی اس مسئلہ کو جو دراصل بائیں بازوں کی نظریاتی ملکیت ہونا چاہیے تھا کھبی اس کی ملکیت کے حصول کیلئے کسی قسم کی کوئی موثر آواز اٹھائی ہے۔ ہاں اس بات کا اعتراف ضرور کیا جانا چاہیے کہ پاکستان کے بائیں بازوں اپنے حکمرانوں اور بھارت کے بائیں بازوں کی طرح کبھی توسیع پسندانہ سوچ کا شکار نہیں ہوئے۔

ہم فخریہ انداز میں کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی لفٹ نے کشمیر کو کشمیری عوام کا ملک سمجھا اور ہمیشہ یہ مطالبہ رکھا کہ کشمیر کو کشمیری عوام کے حوالے کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ جمہوری حکومت جو بڑے بڑے دعوے کیا کرتی ہے آج خارجہ داخلہ علاقائی اور بین الاقوامی اور سیکورٹی کے امور اسٹبلشمنٹ کے حوالہ کر کے محض نوکریاں کر رہی ہے۔

عوام کیلئے اور خطہ کیلئے کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی۔ ہمارے نام نہاد سیاسی رہنما اسٹبلشمنٹ کو خوش کرنے کیلئے نفرت کی دیواریں تعمیر کرر ہے ہیں ان کے منہ نفرت اور آگ اگل رہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کی آڑ میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ محترم مہمانان خصوصی ! پاکستان نے سوچ سمجھ کر مذہب کو بطور ہتھیار دشمن کے خلاف استعمال کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔

اب تک اس حکمت عملی میں تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے ۔ آج بظاہر یہ چند مسلح گروپوں کے خلاف کاروائیاں کرتے ہوئے نظر آ تے ہیں۔ مگر حتمی نتائج تک یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ آج تک کوئی قابل ذکر دہشتگرد ان کارروائیوں میں ہلاک نہیں کیا گیا۔ ہمیں لگتا ہے کہ ماضی کی طرح ان کی کارکروائیوں کا نشنہ عام لوگ اور سیاسی کارکنان ہی ہوں گے۔

ا انہوں نے کہا کہ ہم مذہبی انتہا پسندوں کا خاتمہ چاہتے ہیں فرقہ واریت سے پاک معاشرہ چاہتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان نے پالیسی کے تحت ریاستی امور کو مذہب کے تابے کر دیا ہے اب ریاست کی پالیسیاں مذہب کے نام پر بنتی ہیں۔ سوسائٹی میں مذہب کو ہی میرٹ بنا دیا گیا ہے۔ ریاست سے وفاداری کیلئے سنی عقیدہ ہونا ضروری ہے او وہ سنی عقیدہ جو سعودی عربیہ کی کنگ ڈم کے دفاع کیلئے دامے درمے سخنے حاضر ہونے کیلئے ہمہ وقت تیار ہو۔

آپ کا معیار یمن میں کچھ اور ہے اور شام ، عراق اور لیبیا کیلئے اور۔ جو ریاست اپنی مسجد ، اپنے مندر کے اندر عبادت کرنے والوں اور اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت نہ کر سکے وہ کسی اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کیا کرے گی۔ اسطرح کی پالیسیوں کی وجہ سے خطہ میں انتہا پسندی اور فرقہ واریت بڑھ رہی ہے۔آج آپ دیکھ اور محسوس کر سکتے ہیں ۔ پاکستان میں شیعہ اور سنی تقسیم مزید گہری ہوتی جارہی ہے۔

آخر میں صرف اتنا عرض کروں گی ۔ کہ چین ، سعودی عربیہ اوردیگر غیر جمہوری ممالک نے عام عام پاکستانیوں کے لئے کیا کیا ہے اگر کچھ کیا ہو گا۔ تو صرف اپنے منظور نظر لوگوں کے لئے ۔ اس ہمالیہ سے اونچی دوستی اور سعودی اخوت و بھائی چارے کے دعوے توکئی دہائیوں سے کئے جارہے ہیں ۔ مگر پاکستان کے 18کروڑ انسانوں کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی ۔ بلکہ اگر آج پاکستان کی سول سوسائٹی کمزور ہے تو یہ ان کی ہی دوستی کا شاخسانہ ہے۔

انہوں نے تجاویز پیش کیں کہ پاکستان کی ترقی پسند قوتیں مسئلہ کشمیر کی اور تنازعہ کشمیر کی ملکیت کلیم کریں ۔ تاکہ دائیں بازوں کے دعوؤں کو جھٹلایا جائے۔پاکستان کی جمہوری قوتیں پاکستان ۔ پاکستان کے پالیسی سازوں پر زور دیں کہ دونوں ممالک آپسی تعلقات میں مسئلہ کشمیر کے امیر نہ بنے چونکہ سرد جنگ کے عہد میں برطانیہ نے اس مسئلے کو پیدا کیا ۔

جارج کنہنگم جو خیبر پختونخواہ اور فاٹا کے گورنر تھے نے پیر مانکی اور میجر خورشید انور کے ذریعے اس مسئلہ کو پیدا کرنے کی شروعات کروائیں جب تک دونوں ممالک کے تعلقات خوشگوار نہیں ہوتے ۔ خطہ کے اندر امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔ اسلحہ کی دوڑ ختم نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ وار کیپیٹل چاہتا ہے ۔ کہ سرد جنگ کے تنازعات اور پالیسیاں آگے چلتی رہیں تاکہ ان کا بزنس چلتا رہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ترقی پسند قیادت میں ایک بڑا وفد تشکیل دیا جائے ۔ جس میں پاکستان کی ترقی پسند اور قوم پرست پارٹیوں کے نمائندے شامل ہوں ۔ جو بھارت کی ترقی پسند پارٹیوں کے ساتھ ملکر تنازع کشمیر کے لئے کوشش کریں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر نہ تو بندر بانٹ اور نہ ہی جنگ و جدل سے حل ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر پر۔ حکومتی ایوانوں سے باہر نکل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔

یہ ایک تاریخ ساز شروعات ہوں گی ۔ جس سے نہ صرف تنازعہ کشمیر کے حل کے لئے راہ ہموار ہونے کی امید کی جاسکتی ہے بلکہ خطہ کے اندر امن اور دوستی کے نئے باب کا آغاز ہوگا ۔ یو کے پی این پی کے مرکزی سیکر ٹری جنرل طاہر شاہ گردیزی نے کہا کہ ساؤتھ ایشیامیں مستقل امن ، خوشحالی اور جمہوری نطام کے فروغ کیلئے مسئلہ کشمیر کو حل کیا جائے ، عالمی برادری وحدت کشمیر کی بحالی کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔

آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں بند کی جائیں ، نیپ کے مرکزی صدر پروفیسر خلیق نے کہا کہ سیاسی اور معاشی ناانصافی سے معاشرے میں انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ، نثار شاہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ کشمیرکی آزادی کے لئے پاکستان اور کشمیر کے محنت کش طبقے کو مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی ، انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا واحد حل کشمیر کے تمام حصوں سے پاک بھارت افواج کا انخلا ہے ، اپنا کے سابق مرکزی صدر اظہر کاشر نے کہا کہ ریاست جموں کشمیر کے تمام حصو ں کے درمیان عوام کوآزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دی جائے ،۔

لینٹ افسران کو واپس بلا یا جائے اور وزارت امور کشمیر ختم کی جائے ، قوم پرست ترقی پسند کارکنان پر ریاستی جبر بند کرو۔بابا جان سمیت تمام سیاسی کارکنا ن کو رہا کیا جائے ، یو کے پی این پی کے عمران خوشحال ، سردار آفتاب ، عاصمہ ملک ذوالفقار ملک اور دیگر نے کہا کہ پرامن جنوبی ایشیا مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے ہو کر گزرتا ہے ، اس لئے کشمیر ی عوام کی امنگوں کے مطابق تنازعہ کا حل تلاش کیا کائے ، جس میں انتہا پسندی کا شایبہ نہ ہواور جو کشمیریوں کو مذہب مسلک سے بالاتر کشمیر دلا سکے ۔

متعلقہ عنوان :