کیا کسی نے منصوبے کے تحت الیکشن پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی؟ منصوبہ کیا تھا؟ کس نے بنایا اور عملدرآمد کس نے کرایا؟منصوبہ بندی قومی اسمبلی الیکشن تک محدود یا کسی خاص صوبے تک تھی ؟جوڈیشل کمیشن کے تمام سیاسی جماعتوں سے سوالات

پیر 27 اپریل 2015 16:41

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 27اپریل۔2015ء) جوڈیشل کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں کو مختلف سوالات پر مشتمل سوالنامہ جای کرتے ہوئے مبینہ دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے شواہد اور گواہ طلب کرلئے گئے ‘ کمیشن کا آئندہ اجلاس 29 اپریل کو ہوگا جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس ناصر الملک نے کہا ہے کہ انتخابات کے دوران بعض ریٹرننگ افسران کو الیکشن کمیشن کی منظوری کے بغیر تبدیل کیا گیا ‘ ریٹرننگ افسران کی تبدیلی الیکشن کمیشن کے علم میں ہونی چاہیے تھی ۔

پیر کو جوڈیشل کمیشن کا اجلاس چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں ہوا جس میں حکمران جماعت کی جانب سے وکیل شاہد حامد، تحریک انصاف کی جانب سے عبد الحفیظ پیرزادہ بطور وکیل اور الیکشن کمیشن کی جانب سے سلمان اکرم راجہ کمیشن کے روبرو پیش ہوئے ‘اجلاس کے دوران چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ بعض جماعتوں نے ٹرم آف ریفرنس کے تحت اب تک دستاویزات جمع کرائیں اور جو دستاویزات جمع کرائیں گئیں ان میں سے بھی بیشتر عمومی تھیں چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات کے دوران بعض ریٹرننگ افسران کو الیکشن کمیشن کی منظوری کے بغیر تبدیل کیا گیا حالانکہ ریٹرننگ افسران کی تبدیلی الیکشن کمیشن کے علم میں ہونی چاہئے تھی۔

(جاری ہے)

جوڈشل کمیشن کے اجلاس کے دوران (ن) لیگ کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ عوام کی رائے کو تبدیل کرنا آئین سے انحراف کے مترادف ہے، مسلم لیگ (ق) نے درخواست میں کسی ادارے اور شخصیت کو نہیں بخشا یہاں تک کہ عدلیہ کی آزادی پر بھی حملہ کیا گیا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ فارم 14 اور انتخابی عذرداری سے متعلق ٹریبونل پہلے ہی فیصلے دے چکے ہیں اور ٹریبونل نے جن حلقوں سے متعلق فیصلے سنائے ان کا رکارڈ پیش کیا جاسکتا ہے، اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے وکیل شاہد حامد اور تحریک انصاف کے وکیل عبد الحفیظ پیرزادہ میں تلخ کلامی بھی ہوئی جسے چیف جسٹس نے مداخلت کرکے معاملہ ختم کرادیاعبد الحفیظ پیر زادہ نے کہا کہ 37 حلقوں سے متعلق نادرا کی رپورٹ جمع ہوچکی ہے، ہمیں بھی گواہان سے سوال پوچھنے کی اجازت دی جائے جوڈیشل کمیشن کے پاس وقت نہیں تمام ریکارڈ کا جائزہ لے، ریکارڈ لانے کیلئے بہت محنت کی ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن پر 2 مختلف انداز کے الزامات لگائے گئے ہیں، سیاسی جماعتوں نے پولنگ دن کے متعلق الزامات لگائے جبکہ الیکشن ٹریبونل میں زیر التواء کیسز سے متعلق بھی الزام لگایا گیا، ٹریبونلز کئی عذر داریاں نمٹا چکے، اب سوال کیسے اٹھائے جاسکتے ہیں۔چیف جسٹس ناصر الملک نے کہاکہ الیکشن کمیشن انتخابات کرانے کا ذمے دار تھا، بیلٹ پیپر کی چھپائی، نتائج مرتب کرنے سے متعلق جواب دینا ہوں گے۔

اجلاس کے دور ان مسلم لیگ (ن )کے وکیل شاہد حامد نے اپنے دلائل میں کہا کہ پی ٹی آئی اور ق لیگ نے الیکشن کمیشن پر سنگین الزامات لگائے، تحریک انصاف نے تحقیقات میں ایم آئی، آئی ایس آئی، آئی بی کو شامل کرنے کا کہا ‘کیا حاضر سروس افسران سابق چیف جسٹس، ججز، آر اوز سے تحقیقات کریں گے، ایسا اقدام ججوں کی تحقیر ہوگاچیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی دستاویزات صرف سفارشات ہیں جوڈیشل کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں کو مختلف سوالوں پر مشتمل سوالنامہ جاری کردیا جس میں سیاسی جماعتوں سے پوچھا گیا ہے کہ کیا آپ الزام عائد کرتے ہیں کہ انتخابات غیر جانبدار اور شفاف نہیں ہوئے، اگر نہیں تو کیوں اور آپ اپنے الزامات سے متعلق شہادتیں، مواد اور گواہوں کی نشاندہی کریں، دوسرے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا آپ الزام عائد کرتے ہیں 2013 کے انتخابات پر منصوبے کے تحت کوئی اثر انداز ہوا، اگر ایسا ہے تو یہ بتائیں کہ یہ منصوبہ کیا تھا اور کس نے بنایا، کس نے کس طرح عملدرآمد کیا اور آپ کے پاس الزام کے حق میں کیا شواہد ہیں جب کہ تیسرے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ منظم دھاندلی کا مقصد صرف قومی اسمبلی کے انتخابات تھے یا صوبائی اسمبلیوں میں بھی ایسا ہوا۔

بعد ازاں اجلاس 29اپریل تک ملتوی کر دیا گیا ۔