سندھ سمیت پورے پاکستان میں قدرتی وسائل کی بہتات ہے جن سے توانائی کی ضروریات کو باآسانی پورا کیا جاسکتا ہے، نثار کھوڑو

بھاشا ڈیم کی تعمیر پر چاروں صوبے متفق ہیں لیکن تاحال اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکا۔ تھر کول کی نشاندہی 1998 کو کی گئی تھی، لیکن اس پر عملدرآمد پر سالوں لگ گئے،تقریب سے خطاب

ہفتہ 25 اپریل 2015 21:53

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 25اپریل۔2015ء) صوبائی وزیر تعلیم نثار کھوڑو نے کہا ہے کہ سندھ سمیت پورے پاکستان میں قدرتی وسائل کی بہتات ہے جن سے توانائی کی ضروریات کو باآسانی پورا کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس نے اپنی استعداد کار اور وسائل کو ضائع کیا ہے۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر پر چاروں صوبے متفق ہیں لیکن تاحال اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکا۔

تھر کول کی نشاندہی 1998 کو کی گئی تھی، لیکن اس پر عملدرآمد پر سالوں لگ گئے ۔ وہ گذشتہ روز ایکسپو سینٹر کراچی میں پاک انرجی ریویو کے زیراہتمام انرجی ایوارڈز کی تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر قونصل جنرل سوئزرلینڈ ایمل وائس، ملک خدا بخش ، روزنامہ پاکستان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر مبشر میر، ایڈیٹر پاک بینکر جاوید محمود ، ایڈیٹر عوامی آواز ڈاکٹر ایوب شیخ اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

(جاری ہے)

نثار کھوڑو نے کہا کہ ونڈ کوریڈور ، دریائے سندھ ، تھرکول کے ذخائر مدتوں سے موجود ہیں، لیکن ہم ان تمام قدرتی وسائل کو بروئے کار لا کر آج تک توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ہمیشہ سول حکومتوں پر انگلیاں اٹھائی جاتی رہیں اور 1958 میں باضابطہ الزام لگا کر مارشل لاء کا نفاذ کیا گیا اور فیلڈ مارشل ایوب خان آگئے۔

اور اس کے بعد تو جیسے سلسلہ ہی شروع ہوگیا۔ جمہوری حکومتیں تو برائے نام آتی رہیں اور مارشل لاء کا دور دورہ رہا اور اسی دوران ملک دو لخت ہوا۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف نے کہا کہ تین سال لگیں یا 22 سال بھاشاڈیم کو تعمیر کرکے رہوں گا۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت ونڈ سے ہزاروں میگاواٹ بجلی پیدا کررہا ہے۔ لیکن تمام متبادل توانائی کے ذرائع کے بارے میں معلومات ہونے کے باوجود گذشتہ 9 سال سے کسی کو اس بات کا خیال نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو گندم برآمد کرنے کیا ضرورت تھی۔ اس سے سندھ حکومت پر قرضہ بھی چڑھ گیا اور یوکرائن سے درآمد کی گئی ناقص گندم بھی سندھ کو استعمال کرنی پڑی۔ نثار کھوڑو نے کہا کہ پاکستان کو تخلیق ہوئے 70 سال ہونے کو آئے ، لیکن آج تک ہم ٹیوب ویل کو سولر انرجی سے چلانے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔ انہوں نے بتایا کہ1991کے واٹر ایکارڈ کے تحت دریائے سندھ میں کوٹری کے مقام سے 1.5ملین کیوبک فٹ پانی کا اخراج ہونا ضروری ہے کیونکہ ایسانہ کرنے سے سمندر واپس آئے گا جس سے زمین کم ہوجائے گی۔

لیکن اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کیٹی بندر ، ڈیلٹا اور دیگر علاقوں میں سمندر کا پانی داخل ہورہا ہے۔ جس سے زمین بنجر ہوتی جارہی ہے اور پانی کڑوا ہوگیا ہے۔ سوئزرلینڈ کے قونصلر جنرل ایمل وائس نے کہا کہ توانائی کا شعبہ دنیا بھر کے لیے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سوئزر لینڈ میں 90 فیصد بجلی ہائیڈرو پاور سے تیار کی جاتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ماحول کو آلودگی سے محفوظ رکھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ روزنامہ پاکستان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر مبشر میر نے کہا کہ صوبہ سندھ قدرتی وسائل سے مالا مال سے جن کو بروئے کار لا کر توانائی کی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سستی بجلی کی پیداوار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جبکہ توانائی کے متبادل ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے پر بھرپور توجہ دینی چاہیے۔

ملک خدابخش نے کہا کہ صوبہ سندھ کے پاس ایل این جی درآمد کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ ملک کے 70 فیصد گیس کے ذخائر یہاں پر موجود ہیں ۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے ایس آر او جاری کیا تھا کہ ماحول دوست ایندھن کے لئے سی این جی کو فروغ دینا چاہیے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے سی این جی کے شعبے پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی گئی لیکن بعد میں اس کو ختم کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ کیونکہ یہاں کے سرمایہ کاروں نے سی این جی کے شعبے پر کثیر سرمایہ کاری کی ہے، اس لیے سی این جی اسٹیشن اونرز نے سمندری جہاز کے ذریعے سی این جی درامد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے حکومت کی رضامندی حاصل کرلی گئی ہے جبکہ اوگرا نے بھی سی این جی درآمد کرنے کی اجازت دیدی ہے۔ جاوید محمود نے کہا کہ حکومتیں گذشتہ بارہ سال سے بھاشا ڈیم کے لیے زمین نہیں خرید سکی ہیں۔

پیپلز پارٹی ، نواز لیگ کی حکومتیں آئیں لیکن تاحال اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت ایل این جی مانگ رہی ہے لیکن پیپلزپارٹی نے اپنے دور اقتدار میں ایل این جی کے شعبے پر دانستہ طور پر کام نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومتیں اس طرح کی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی رہیں تو پاکستان کبھی بھی توانائی کے بحران پر قابو نہیں پاسکے گا۔

ڈاکٹرایوب شیخ نے کہا کہ پاکستان ہزاروں اطراف سے مختلف اقسام کے پروپیگنڈہ کی زد میں رہتا ہے، کوئی کہتا ہے سمندر میں گرنے والے پانی پر ڈیم بنایا جائے اور کوئی کہتا ہے کہ یوکرائن سے منگوائی جانے والی گندم خراب ہے اس لیے سندھ کو کھلائی جائے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایل این جی میں کک بیک (Kick Back)زیادہ ہیں جبکہ سی این جی میں نہیں ہے۔ اس لیے حکومت ایل این جی کی درآمد میں دلچسپی لے رہی ہیاور کوئی یہ شگوفہ چھوڑتا ہے کہ سندھ میں وسائل اضافی ہیں۔

اس لیے ان کا کیا کرنا ہے ، بات یہ ہے کہ اگر ہم سب اپنے اپنے دلائل لے آئیں تو یہ پروپیگنڈہ ختم ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم پر روز نئی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں جو محض ایک ڈھونگ کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیٹی بندر تک پانی کڑوا ہوچکا ہے ۔ اگر دریائے سندھ میں اضافی پانی موجود ہے تو اس کو وہاں بھیجا جائے تاکہ زمین کو بنجر ہونے سے بچایا جاسکے۔

انرجی ایوارڈز پانے والوں میں ABBپاکستان لمیٹڈ کے کنٹری منیجر نجیب احمد، Eland کیبلز انٹرنیشنل کے پروجیکٹ منیجر عمران شاہ ، شنائیڈر کے نمائندے راشد محمود ، Coltrols کے منیجر سید کاشف رضا ، پیل پاکستان کے ڈائریکٹر معین الدین، Pegasus کنسلٹینسی کے ایم ڈی عامر خانزادہ، اینگرو این ایل جی ٹرمینل کے CEO عمران الحق، فاسٹ ٹریک ایل این جی پروجیکٹ کے لئے پروجیکٹ لیڈر فیصل شفیق، پی پی ایل کے ایم ڈی وامق بخاری، BST سروسز پاکستان کے CEO عامر حسین، کیپکو پاکستان کے کنٹری منیجر آغا اسرار خان، Kol Pec Pk کے شاہد سلیم خان شامل ہیں۔

سوئس قونصل جنرل ایمل وائس، ملک خدا بخش، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کے سابقہ ایم ڈی عاصم مرتضیٰ اور فرید خان کو خصوصی شیلڈ ز دی گئیں ۔ تقریب میں کوکب اقبال،کرنل علی رضا ،عزیز جکارتہ والا ،ضیغم حسین ،طاہرہ بھٹی ،نصرت شاہ ،زیڈ ایچ خرم ،راشدہ تبسم،فاطمہ مشرف اور دیگر نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ نظامت کے فرائض کنول سید نے انجام دیئے۔

متعلقہ عنوان :