سب سے زیادہ منحوس سمجھی جانے والی اشیاء

Fahad Shabbir فہد شبیر ہفتہ 25 اپریل 2015 20:58

سب سے زیادہ منحوس سمجھی جانے والی اشیاء

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔25اپریل۔2015ء)انیسویں صدی کے وسط میں جنوبی کیرولینا میں جیکب کولے نے اپنے ہوسیع نام کے غلام کو قتل کر دیا۔ ہوسیع کا قصور یہ تھا کہ اس کی بنائی ہوئی دراز اور صندوق جیکب کو پسند نہیں آئے تھے۔ہوسیع کے ساتھی غلاموں نے مالک سے انتقام لینے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے ایک جادوگرنی کی خدمات حاصل کی اور صندوق پر جادو کرادیا۔

اس جادو کی وجہ سے جیکب سمیت اس کے خاندان کے 17 افراد مارے گئے جن میں ایک نوزائیدہ بچہ بھی شامل ہے۔ بعد میں جادوگرنی نے اپنا جادو ختم کر دیا اور یہ صندوق اب کنٹکٹی ہسٹری میوزیم میں رکھا ہوا ہے۔ جب میری اینڈریسن کو اس کے پوتے نے دادا کا بھوت دیکھنے کی اطلاع کی تو میری نے اس لاٹھی سے جان چھڑانے کا فیصلہ جو دادا سے بچے کو ملی تھی۔

(جاری ہے)

یہ لاٹھی 65 ہزار ڈالر میں فروخت ہوئی اور اینٹیگوا کے گولڈن پلیس کیسینو میں رکھی ہے۔

برونو اماڈیو کی روتے ہوئے بچے کی تصویر میں 1980 کے عشرے میں خبروں کا موضوع بنی رہی۔ یارک شائر کے آگ بجانے والے نے دعویٰ کیا کہ گھر میں کئی دفعہ آگ لگنے کے باوجود اس تصویر کو خراش تک نہ آئی۔افواہیں تھیں کہ یہ تصویر منحوس ہے۔ایک اخبار نے بون فائر کا اہتمام کرکے تصویر کی کاپیوں کو جلا کر ملک کو اس تصویر کی نحوست سے نجات دلائی۔ 1987 میں ایلن اور ڈیبی نے ونکونسن میں بستر خریدے ، جس کے بعد اُن کے 9 ماہ بہت تکلیف میں گذرے۔

کبھی ان کا ریڈیو خودبخود اسٹیشن بدل لیتا، کبھی بچے بیمارجاتے اور کبھی رات میں جادوگرنی نظر آتی۔ ایلن نے ایک پاسٹر سے رابطہ کیا تو 1988 کی کرسمس تک مکان میں سکون ہو گیا۔ اس کے بعد ایک آواز نے ایلن کو گیراج میں بلایا، گیراج میں ایلن کو بھڑکتی آگ نظر آئی اور غائب ہو گئی۔ پینسلوینیا کی موت بھی کرسی بھی کافی مشہور ہے جسے فلاڈلفیا کے بایلروئے میشن میں رکھا گیا ہے۔

200 سال پرانی اس کرسی کو نپولین سے منسوب کیا جاتاہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کرسی پر امیلیا نام کی بھوت نے قبضہ کر لیا ہے۔ کرسی کا نام موت کی کرسی اس لیے پڑا کہ چار آدمی اس پر بیٹھنے کے تھوڑی دیر کے اندر اندر مر گئے۔کہتے ہیں کہ جو بھی اس کرسی پر بیٹھے کا مر جائے گا۔ لوسیانا کے شیشے کی کہانی بھی کافی مشہور ہے۔1817 میں ایک غلام عورت، جس کانام چولوئی تھا، کو بغیر اجازت گفتگو سننے پر کان کاٹ دینے کی سزا دی گئی۔

اپنے کان کو سبز رنگ کی پگڑی میں چھپائے رکھنے والی چولوئی نے اپنے آقا کی محبت واپس پانے کے لیے ایک عجیب منصوبہ بنایا۔ اس نے آقا کی فیملی کو زہر دے کر بیمار کرنے اور بیماری کے دوران اُن کا خیال رکھ کر سب کا دل جیتنے کا سوچا۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ اس نے زہر کی زیادہ ہی ڈوز دے دی جس سے آقا کی بیوی اور دو بچے مرگئے۔چولوئی نے اپنے ساتھی غلاموں کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا۔

ساتھی غلاموں نے سب پر الزام لگنے کے خوف سے چولائی کو قتل کر دیا۔ رسم کے مطابق جب خاندان کے افراد قتل ہوئے تو تمام شیشوں کو ڈھانپ دیا جانا تھا تاکہ مرنے والوں کی روحیں دوسری سائیڈ سے باہر نکل جائیں، مگر تمام شیشے نہیں ڈھانپے گئے ۔ اب ایک شیشے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب بھی اس میں دیکھو تو ایک پگڑی والی عورت نظر آتی ہے ، جب دوسرے شیشے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں عورت اور دو بچوں کی روحیں قید ہیں۔