ذکی الرحمن لکھوی کواغواء کیس میں بری کر دیاگیا

مقدمہ چھ سال پرانا ہے اور ابھی تک مغوی شخص کے وجودہونے یا ہونے بارے کوئی ثبوت نہیں مل سکے، مقدمے کی تحقیقات میں مغوی انور خان کا نہ تو کوئی شناختی کارڈ ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ’ب‘ فارم موجود ہے ، ابھی تک ذکی الرحمٰن کے اِغوا کے مقدمے میں ملوث ہونے کے کوئی براہ راست ثبوت نہیں ملے، سیشن جج ویسٹ اسلام آبادکے فیصلے میں ریمارکس

منگل 21 اپریل 2015 21:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 21اپریل۔2015ء )سیشن جج ویسٹ اسلام آباد محمو تنویر میر نے انور خان اغواء کیس میں ممبئی حملہ کیس کے مرکزی ملزم ذکی الرحمن لکھوی کو بری کر دیا ۔منگل کو دورانِ سماعت عدالت نے قراردیا کہ ذکی الرحمٰن لکھوی کے خلاف اس مقدمے میں ملوث ہونے کے کوئی براہ راست ثبوت نہیں ملے۔ ساڑھے چھ سال قبل اغواء ہونے والے نوجوان انور خان کو اغواء کرنے کا الزام تھا،مغوی کے سالے داؤد خان نے اغواء کا مقدمہ درج کرایا تھا۔

ملزم کے وکیل نے 13فروری کے فیصلے کے خلاف سیشن جج کی عدالت میں اپیل دائر کی تھی،جوڈیشل مجسٹریٹ نوید خان نے ملزم کو بری کرنے کی استدعا مستر د کر دی تھی۔گولڑہ پولیس نے گزشتہ سال کے آخر میں ممبئی حملہ کیس کے مرکزی ملزم ذکی الرحمن کی انسداد دہشت گردی کی عدالت سے ضمانت کے بعد حراست میں لے لیا تھا۔

(جاری ہے)

مقدمہ کا مدعی افغانستان چلا گیا ہے اور وقوعہ کا کوئی گواہ بھی موجود نہیں جبکہ میرا موکل گزشتہ چھ سالوں سے جیل میں ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس مقدمے میں سرکاری وکیل عامر ندیم تابش نے بتایا کہ اْنھوں نے اس مقدمے میں ذکی الرحمٰن لکھوی کی بریت کی درخواست کی مخالفت کی تھی۔انھوں نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا کہ اس وقت کسی طور پر بھی ملزم کی بریت کی درخواست کو منظور نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ ابھی تک اْن پر تو اس مقدمے میں فردِ جرم بھی عائد نہیں کی گئی۔

انھوں نے کہا کہ مقامی عدالت نے فردِ جرم عائد کرنے کے لیے متعدد بار جیل حکام کو ذکی الرحمٰن لکھوی کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے حکم دیا تھا تاہم جیل حکام یہ یہ کہتے تھے کہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اْنھیں عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔سرکاری وکیل نے کہا کہ اْنھوں نے اپنے دلائل میں یہ بھی کہا کہ ایسی صورت حال میں مدعی مقدمہ کو نوٹس دیا جاتا ہے اور اگر پھر بھی وہ عدالت میں پیش نہ ہوں تو اْن کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جاتے ہیں۔

اْنھوں نے کہا کہ اس مقدمے میں تمام مراحل پورے نہیں کیے گئے اور ملزم کی بریت کی درخواست کو کسی طور پر بھی قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔اس موقع پر عدالت نے قراردیا کہ یہ چھ سال پرانا مقدمہ ہے اور ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ جس شخص کو اِغوا کیا گیا تھا اس کا وجود بھی ہے یا نہیں کیونکہ اس مقدمے کی تفتیش میں مغوی انور خان کا نہ تو کوئی شناختی کارڈ ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ’ب‘ فارم موجود ہے۔

سیشن جج تنویر میر نے کہا کہ عدالت میں جمع کروائے گئے ریکارڈ میں کسی شخص کا بیان بھی موجود نہیں ہے جس میں اْس نے کہا ہو کہ اس نے مغوی انور خان کو دیکھا ہے۔عدالت کے مطابق ابھی تک ایسے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ ذکی الرحمٰن لکھوی اِغوا کے مقدمے میں ملوث ہیں۔ اس سے پہلے ملزم کے وکیل نے بریت کی درخواست کے حق میں دلائل دیے تھے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس نے ذکی الرحمٰن لکھوی کے خلاف اس وقت مقدمہ درج کیا تھا جب انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ممبئی حملوں کی سازش تیار کرنے کے مقدمے میں ملزم کو ضٰمانت پر رہا کر دیا تھا۔وفاقی حکومت نے ملزم کو خدشہ نقضِ امن کے تحت حراست میں رکھا تھا تاہم چند روز پہلے لاہور ہائی کورٹ نے اس حراست کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اْنھیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا