حکومت کی ایل این جی پالیسی کو ناکام بنانے کی سازش بے نقاب ہوگئی ، گیس کمپنیوں نے ایکا کر کے حکومت اور وزارت پٹرولیم کو بے بس کر دیا،ایل این جی کے پہلے جہاز کی آمد سے گیس کاگردشی قرضہ250ارب ہو گیا

نجی شعبہ کی دلچسپی ختم، ہر سطح پر مخالفت سے حکومت کی بدنامی ہو رہی ہے پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل کابیان

منگل 21 اپریل 2015 17:55

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 21اپریل۔2015ء ) پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ توانائی بحران حل کرنے کیلئے بنائی گئی حکومت کی ایل این جی پالیسی کو غیر فعال اور غیر شفاف بنانے کی سازش کامیاب ہو رہی ہے جسکی وجہ سے گیس استعمال کرنے والے شعبوں کی ایل این جی میں دلچسپی ختم ہو رہی ہے جبکہ قیمت کے ابہام، رازداری اور کرپشن کے الزامات کی وجہ سے مختلف فورمز پر اسکی مخالفت بھی شروع ہو گئی ہے جو ملک اور حکومت کی بدنامی کا سبب ہے۔

گیس کے طلبگار شعبوں کو عالمی منڈی سے دگنی قیمت میں گیس فراہم کرنے سے انھیں دکھائے گئے خوابوں کی تعبیر انتہائی بھیانک نکلی ہے۔ منگل کو اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہاکہ گھر کے بھیدیوں کے مطابق ایک بروکر اور ایک بینکار کی ایما پر ایل این جی کی امپورٹ کے خلاف کئی اداروں اور گیس کمپنیوں نے ایکا کر کے مرکزی حکومت اور پٹرولیم کی وزارت کو مکمل بے بس کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

سارے کھیل کی نگرانی ایک اعلیٰ افسر کر رہے ہیں جنھیں سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف چار بار مدت ملازمت میں توسیع دی جا چکی ہے۔موصوف مختلف حیلے بہانوں سے یو ایف جی بڑھاکر عوام کی جیب پراربوں کا ڈاکہ مارنے کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں۔ اب وہ ایل این جی کی امپورٹ کے نقصانات بھی ملک بھر کے عوام پر ڈالنے کی سازش کر رہے ہیں تاکہ گیس کمپنی کے شئیرہولڈرز کا منافع بڑھایا جا سکے۔

ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا کہ جن شعبوں نے26 مارچ کو تین ارب روپے خرچ کر کے ایل این جی کی درامد یقینی بنائی انھیں محروم کر کے پاور سیکٹر کو نوازا کیا جبکہ بلنگ جان بوجھ کر روک دی گئی ہے جس سے گیس کے شعبہ بھی گردشی قرضہ کی ابتداء ہو گئی ہے جسکا ابتدائی حجم 250 ارب روپے ہے۔ ایل این جی کی درامد رکنے کی صورت میں گیس کی تقسیم کار کمپنیوں کی اجارہ داری قائم اور انکے بورڈ ممبران کا منافع ملک و قوم کی قیمت پربڑھتا رہیگا۔اس معاشی دہشت گردی سے جہاں حکومت اربوں کے محاصل سے محروم ہو گی وہیں ملک کی شرح نمو، روزگار کی صورتحال اور سرمایہ کاری کے ماحول پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہونگے جبکہ مہنگے ایندھن کی کھپت بڑھ جائے گی۔

متعلقہ عنوان :