ملک بھر میں ہائی پروفائل سے لیکر عام شہری تک جنسی حراساں کی درخواستوں کی شنوائی ہوتی ہے۔جنسی حرا سیت عدالت کی جج جسٹس (ر)یاسمین عباسی

عدالت میں 90فیصد مقدمات نمٹا دیے گئے ہیں، واحد عدالت ہے جسکے فیصلے کو کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ،۔کسی بھی ملازم مرد و خواتین پرائیویٹ ہو یا سرکاری انکے مقدمات سنے جا سکتے ہیں ،سروس سے برخاست ،گریڈ سے تنزلی اور نکالے گئے ملازمین کو بحال تک کرانے کے فیصلے دیے گئے جن پر سو فیصد عمل درآمد ہواہے،خصوصی گفتگو

پیر 20 اپریل 2015 22:44

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 20اپریل۔2015ء) عدالت برائے جنسی حراسیت عدالت کی جج جسٹس (ر)یاسمین عباسی نے کہا ہے کہ عدالت میں 90فیصد مقدمات نمٹا دیے گئے ہیں،ملک میں واحد عدالت ہے جسکے فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ،ایوان صدر کے ماتحت کام کرنے والی عدالت کے فنڈز محدود ہیں اگر فنڈز دیے جائیں تو ہم اپنے کام اور فیصلوں میں مزید نکھار لا سکتے ہیں۔

کسی بھی ملازم مرد و خواتین پرائیویٹ ہو یا سرکاری انکے مقدمات سنے جا سکتے ہیں ،سروس سے برخاست ،گریڈ سے تنزلی اور نکالے گئے ملازمین کو بحال تک کرانے کے فیصلے دیے گئے جن پر سو فیصد عمل درآمد ہواہے۔ان خیالا ت کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 20اپریل۔2015ء سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

جنسی حراسیت عدالت کی جج جسٹس (ر)یاسمین عباسی نے کہا ہے کہ جب سے انہوں نے اس عدالت میں بطور جج چارج سنبھالاہے اس وقت سے لیکر اب تک نوے فیصد کیس نمٹا دیے گئے ہیں ان میں ہائی پروفائل مقدمات بھی تھے ،انہوں نے کہا کہ عدالت کے دائرہ اختیا رکو وسعت دینے کے لیے ایک سمر ی بھیجی ہے تاکہ اور جو اسی ایشو سے متعلق کیس ہوں انکی بھی شنوائی ہو سکے ۔

یاسمین عباسی نے مزید بتایا کہ ملک بھر سے درخواستں آتی ہیں قانون کے مطابق ایک تین رکنی کمیٹی اسی ادارے میں بنائی جاتی ہے اس تین رکنی کمیٹی میں ایک رکن خاتون کا ہونا ضروری ہے ایک ہفتہ کے بعد جب وہ اپنی فائنڈنگ رپورٹ عدالت کو بھیجتی ہے تو اس کے بعد عدالت پھر نوٹس کرتی ہے اور باقاعدہ کیس کی سماعت کی جاتی ہے دونوں فریقین کو سنا جاتا ہے اور قانونی سوال بھی کیے جاتے ہیں بعد ازاں فیصلہ صادر کیا جاتا ہے۔

حراساں صرف خواتین کو نہیں کیا جاتا بلکہ مردوں کو بھی کیا جا تا ہے ۔اب عدالت نے نوٹس بھیجنے کے طریقہ کار کو مزید بہتر بنایا ہے نوٹس متعلقہ دفتر اور انکے گھر کے پتہ پر بھی بھیجا جا تا ہے ۔جسٹس ر یاسمین عباسی نے کہا کہ گھروں میں کام کرنے والی خواتین و لڑکیا ں چوکیدار اور دیگر عملہ کو بہت زیا دہ حراساں کیا جا تا ہے وہ بھی اپنی شکایات عدالت میں کر سکتے ہیں اور ہمیں اختیار ہے کہ ایسے درخواستوں پر سماعت کر سکیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس عدالت میں میڈیا کو بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی کیونکہ یہ معاملہ نجی زندگی کا ہوتا ہے اور پھر اخبار میں رپورٹ شائع ہونے کے بعد انکی ذاتی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ عدالت سے متعلق اگاہی نہیں ہے اس لیے درخواستوں کا رش نہیں ہے

متعلقہ عنوان :