پاکستان کو گیس کی ضرورت ہے، گزشتہ تین حکومتوں نے کوشش کی لیکن ناکام رہیں،شاہد خاقان عباسی

چیلنج کر تے ہیں حکومت ایل این جی میں کرپشن پر مناظرہ کرنے کو تیار ہے،دنیا کا کوئی ملک ڈیزل سے بجلی تیار کرنے کو تیار نہیں،اس لئے ہم نے ایل این جی سے بجلی پیدا کررہے ہیں چیئرمین سینیٹ نے ایل این جی پر بحث سمیٹتے ہوئے قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا

پیر 20 اپریل 2015 22:34

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 20اپریل۔2015ء) ایوان بالامیں پیر کے روز وفاقی وزیرپٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے ایل این جی پر بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو گیس کی ضرورت ہے، گزشتہ تین حکومتوں نے کوشش کی لیکن ناکام رہیں،اگر گیس کا معاملہ حل ہوجاتا تو بجلی کا مسئلہ حل ہوجاتا،پونے دوسالوں میں حکومت نے ایل این جی گیس کی درآمد کا فیصلہ کیا،دنیا میں35 ایل این جی ٹرمینل ہیں پاکستان نے11ماہ میں ٹرمینل تیار کرلیا،حکومت کی کوئی سرمایہ کاری نہیں کی دنیا میں سب سے کم قیمت پر ٹرمینل تیار ہوا،66 سینٹ کے این پر تیار ہوا،حکومت چیلنج کرتی ہے کہ ایل این جی میں کرپشن پر مناظرہ کرنے کو تیار ہے،400کیوبک سینٹ کے ٹرمینل کا کنٹریکٹ ہے،ڈیزل سے ریپلیس کیا جائے گا،1000ملین ڈالر کی سوچنگ ہے،دنیا کا کوئی ملک ڈیزل سے بجلی تیار کرنے کو تیار نہیں،اس لئے ہم نے ایل این جی سے بجلی پیدا کررہے ہیں،دیگر ذرائع سے40فیصد کم لاگت پر بجلی پیدا کی جائے گی،ڈھائی ارب ڈالر کی بچت ہوگی،وقت آنے پر سینٹ کے سامنے لے آئیں گی،کنٹریکٹ پر دستخط نہیں ہوئے ابھی قیمتوں کا تعین باقی ہے،حکومت پٹرول کو مدنظر رکھتے ہوئے قیمت کا تعین کیا جائے گا،جیسے قیمت کا تعین کیا جائے گا،ایوان میں پیش کردی جائے گی،قیمت ایشیاء کی سب سے کم قیمت ہوگی،ایل این جی کی قیمت تیل کے ساتھ وابسطہ ہے،جسے تیل کی قیمت کم ہوگی ایل این جی قیمت بھی کم ہوگی،ملک کی کل پیداوار کے10فیصد اضافی گیس ملے گی،حکومت36 سومیگاواٹ بجلی کے یونٹ لگا رہی ہے،اس سے سالانہ30لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی،2ارب ڈالر کی بچت ہوگی،ایل این جی کا معاہدہ مستقل بنیادوں پر بچت کا ذریعہ بنے گا،یہ اقدام اگر چند سال پہلے اٹھا لئے جاتے تو آج بجلی کا بحران نہ ہوتا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ٹرمینل کی تعمیر سے ایک ارب ڈالرکی بچت ہوگی،جسے صرف قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کے سامنے پیش کردیا ہے۔اپوزیشن لیڈر سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ ایل این جی جس قیمت پر ملی ہے حکومت ہمیں بتائے ،پیپرا رولز کے مطابق حکومت نے کس طرح قیمتوں کا تعین کئے بغیر کس طرح معاہدہ کرلیا،جس پر وزیرپٹرولیم نے کہا کہ حکومت نے پرائیوٹ سیکٹر میں ایل این جی کی درآمد کی اجازت دی۔

ایک ایل این جی کا جہاز اینگرو نے درآمد کیا ہے۔چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے ایل این جی پر بحث کو سمیٹتے ہوئے اسے قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔سینیٹر سعید غنی نے ایوان کو بتایا کہ وزارت پٹرولیم کے اعلیٰ حکام ایس ایس سی کے حکام پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ایل این جی معاہد وں پر دستخط کریں ورنہ ان کی نوکریاں ختم کردی جائیں گی،حکومت نے ایل این جی پرائیویٹ کمپنی کے ذریعے منگوائی ہے۔

ایل این جی کی قیمتوں کے حوالے سے ایوان کو بتایا جائے،ابھی تک حکومت زبانی جمع خرچ کرکے عوام کو بے وقوف بنا رہی ہے،ایل این جی کے حوالے سے وزارت پٹرولیم اور اینگرو کے حکام ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں۔حکومت روزانہ دو لاکھ بہتر ہزار ڈالر ادا کررہی ہے،ایک جہاز آنے کے بعد معلوم نہیں کب دوسرا جہاز آئے گا لیکن رقم اینگرو ٹرمینل کو روزانہ کی بنیاد پر ادا کی جائے گی۔

ایل این جی سے بجلی پیدا کی گئی تو بجلی مہنگی ہوگی حالانکہ فرنس آئل کی قیمت کم ہے اس سے بجلی پیدا کی جائے۔پرائیویٹ سی این جی سٹیشنز کو ایل این جی درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔اے این پی کے سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ کراچی پورٹ پر ایل این جی کا جہاز کھڑا رہا حکومت بتائے کہ یہ کس معاہدے کے تحت بندرگاہ پرآیا۔انہوں نے امریکہ،انڈیا اور برطانیہ سمیت کئی ممالک میں ایل این جی کی قیمتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ان ممالک سے زائد قیمت پر ایل این جی خریدی ہے،حکومت پرائیویٹ سیکٹرکو ایل این جی درآمد کرنے کی اجازت دے،صرف پی ایس او کو ٹھیکہ دینا ناانصافی ہے،حکومت سینہ زوری نہ کرے۔

پیپلزپارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ حکومت ابھی دس ڈالر پر ایل این جی خرید رہی ہے،ملک میں گیس کی کمی ہے،گیس پائپ لائن کا منصوبہ مکمل نہیں مگر ایل این جی منگوا لی گئی،حکومت نے400ارب روپے کے ٹیکس لگائے جبکہ گیس بحران پر اندرون ملک قابو کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے غیر ملکی کمپنیوں کو گیس نکالنے کے ٹھیکے دئیے ہوئے ہیں جو اپنی مرضی سے قیمتیں لگاتی ہیں۔

سینیٹرمحسن نے ایل این جی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایل این جی کے معاہدے کو کیوں خفیہ رکھا جارہا ہے،جس کی قیمت آئندہ نسل بھگتے گی،بین الاقوامی ممالک نے6سے7ڈالر میں سی این جی درآمد کی لیکن ہمارے ملک میں8ڈالرکے حساب سے خریدی جارہی ہے،شیروں کی حکومت ہے کون پوچھ سکتا ہے،حکومت 15سال کے معاہدے کے تحت ایل این جی خرید رہی ہے،حکومت کے اختیار میں ہے لیکن آئندہ حکومت اس معاہدے پر عملدرآمد کرے گی۔

میٹروبس پروجیکٹ اپنی فنڈنگ سے مکمل کرے غیر ملکی کمپنی صرف ڈیڑھ سال میں اپنے پیسے وصول کرکے منافع کرے،حکومت جب تک ایل این جی کا معاہدہ سامنے نہیں لاتی اس پر پابندی لگائی جائے۔حکومت معاشی دہشتگردی کر رہی ہے۔ایل این جی کا آئندہ پندرہ سال میں25 ڈالر ہوتا ہے تو35روپے یونٹ فروخت کرے گی۔پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ ہمارے دور حکومت میں سپریم کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے روک دیا تھا لیکن کسی معاہدے کے بغیر موجودہ حکومت ایل این جی خرید رہی ہے لیکن اب کلچر تبدیل ہوگیا ہے،اینگرو نے پرائیویٹ ٹرمینل تعمیر کیا،معاہدے میں ایل این جی درآمد کو لیکر لیکوڈ میں تبدیل کردیا جائے گا،158 ملین ڈالر کی لاگت سے ٹرمینل تعمیر مکمل ہوچکی ہے،حکومتی معاہدے کے مطابق اس پر ایل این جی نہیں آرہی،272ملین ڈالر جرمانہ کے حساب سے96بلین ڈالر بنتے ہیں۔

پی ایس او سوئی نادرن اور سوئی سدرن کے سربراہ کو بلا کر کہا گیا کہ پی ایس او کے ساتھ معاہدہ کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جارہا ہے،معاہدے کو سامنے نہیں لانا ہے۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ گیس پر پرائیویٹ مناپلی کنٹرول کرتی جارہی ہے کراچی کی سیکورٹی کے حوالے سے حکومت نے کوئی اقدام نہیں کیا،پورٹ قاسم کے ٹرمینل میں ایل این جی لگا دی ہے،ایل این جی ٹرمینل لگانے والی کمپنی نے واضح کیا کہ ایل این جی ٹرمینل علاقے کی آبادی کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔

سینیٹر نعمان وزیر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت میں12فیصد پر خریدا تو بہت شور شرابہ ہوا لیکن موجودہ حکومت15فیصد پر خرید رہی ہے مگر انکے فیصلہ کے مطابق ٹرمینل پر جہاز آنہیں سکتا لیکن272لاکھ ہزار ڈالر ضائع کر رہے ہیں،8ڈالر پر ایل این جی منگوانے کے پیچھے دو افراد کا ہاتھ ہے،خیبرپختونخوا میں گیس نکالی گئی ہے اس کی سپلائی ایک اصولی فیصلے کے تحت کی جارہی ہے۔

سینیٹر لطیف انصاری نے ایل این جی کے معاہدے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل158کے تحت صوبائی حکومتوں کو حقوق دئے جائیں،سندھ بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے گیس پنجاب کو دی جاتی ہے،صوبے کی گیس صوبے کے اندر استعمال ہوتو گیس کی لوڈشیڈنگ ختم ہوسکتی ہے،صوبائی ناانصافیوں کے خاتمے کیلئے سینیٹ میں آئے ہیں اگر اس کے ذریعے صوبوں کو حقوق نہ دلوا سکے تو ہمارا کوئی فائدہ نہیں ہے،ایل این جی درآمد کرنے کا بوجھ سندھ پر نہیں پڑنا چاہئے،ایم کیو ایم کی سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ ایل این جی کی درآمد ملکی ضروریات پوری کرنے کیلئے ہے،پاکستان کے پاس مختلف ممالک سے توانائی کی درآمد کے راستے موجود ہیں،لیکن تیز تر درآمد کا معاہدہ ایل این جی کی درآمد ہے۔

ایران اور کینیڈا سے ایل این جی ایکسپورٹ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ،آئندہ برسوں میں ہم مہنگی ایل این جی درآمد کیوں کر رہی ہے مہنگی درآمد کا بوجھ ہماری آئندہ نسلوں پر آئے گا جو گیس سندھ میں پیدا ہوتی ہے،لیکن لوڈشیڈنگ نہیں ہونی چاہئے،ناانصافی کا سدباب ہونا چاہئے،پندرہ سال کی بجائے سالانہ گیس کا معاہدہ ہونا چاہئے