کراچی فتح کرنے نہیں عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے آیا ہوں ، شہر قائد میں وکلاء کو زندہ جلایا گیا ،ایسا پُر امن شہر بنانا چاہتے ہیں جہاں الطاف حسین بھی بلا خوف و خطر آسکیں ، اجمل پہاڑی کو اجمل صدیقی اور فیصل موٹا کو فیصل بنائیں گے ،ضمنی الیکشن میں بائیو میٹرک سسٹم کا استعمال کیا جائے ، دود ھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہوجائے گا ،وکلا نے ہمیشہ جمہوریت اور جمہوری سیاست کا ساتھ دیا

امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کاکراچی بارایسوسی ایشن سے خطاب

ہفتہ 18 اپریل 2015 22:58

کراچی ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 18اپریل۔2015ء ) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ میں کراچی فتح کرنے نہیں بلکہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے آیا ہوں ،9اپریل کو کراچی میں وکلا کو زندہ جلایا گیا ،ہم کراچی کو ایسا پُر امن شہر بنانا چاہتے ہیں جہاں الطاف حسین بھی بلا خوف و خطر واپس آسکیں ،ہم اجمل پہاڑی کو اجمل صدیقی اور فیصل موٹا کو فیصل بنائیں گے۔

الیکشن میں بائیو میٹرک سسٹم کا استعمال کیا جائے اس سے دود ھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہوجائے گا ،وکلا نے ہمیشہ جمہوریت اور جمہوری سیاست کا ساتھ دیا ہے اور ہمیشہ ڈکٹیٹر کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں جماعت اسلامی نے بھی ہمیشہ وکلا تحریک کا ساتھ دیا ہے اور ہم آج بھی وکلا برادری کے ساتھ کھڑے ہیں 24سالوں میں ایم کیو ایم نے کراچی کے عوام کو کچھ نہیں دیا یہاں سیاسی اور معاشی دہشت گردی جا ری ہے ۔

(جاری ہے)

کراچی ملک کی معاشی اور نظریاتی شہ رگ ہے ،کراچی بار سے خطاب میرے لیے اعزا ز کی بات ہے ،کراچی میں نفرتوں کے بجائے امن و محبت کی شمع روشن کرنے کی ضرورت ہے ۔ وہ ہفتہ کو کراچی بارایسوسی ایشن سے خطاب کر رہے تھے ۔اس موقع پر کراچی بار کے صدر نعیم قریشی ایڈوکیٹ نے بھی خطاب کیا۔سر اج الحق کی بار آمد پر بار کے عہدیداران اور سینئر وکلا سمیت وکلا برادری نے شاندار استقبال کیا اور پھولوں کی پتیاں نچھا ور کیں ۔

سراج الحق نے کہا کہ جب مارشل لاء کے دور میں عوام اور سیاست دانوں کا بولنا مشکل ہو تو بار ایسوسی ایشن ہی وہ مقامات ہوتے ہیں جہاں سے انسانی حقوق کی مہم چلائی جاتی ہے۔ میں آج ان لوگوں کے درمیان ہوں جنہوں نے ایٹم بم تو نہیں بنایالیکن اس سے بڑھ کر کام کیا اور پاکستان بنایا ۔بابائے قوم بھی پاک وہند ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایماندار اور بہترین وکیل تھے ۔

اٹھارہ کروڑ عوام پر وکلا کا بہت بڑا احسان ہے ۔جب پرویز مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کے آگے سب نے سرجھکادیا تھا اس وقت ایک وکیل نے ہی نعرہ مستانہ بلند کیا تھا ۔جماعت اسلامی نے بھی اس تحریک میں وکلا کا ساتھہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مسئلہ قومیتوں کا نہیں، لسانی نہیں بلکہ بنیادی مسئلہ ظالم اور مظلوم کا ہے یہ ظالم بلوچوں میں بھی موجود ہیں، سندھیوں ،پنجابیوں اور پٹھانوں میں بھی موجود ہیں اور یہ متحد بھی ہیں لیکن مظلوم منتشر ہیں ان کا کوئی پلیٹ فارم نہیں ظالم طبقہ لسانیت اور مسلک کے نام پر عوام کوتقسیم کرکے مظلوموں کو لڑواتا ہے ۔

مارشل لا ء ہویا جمہوریت دونوں میں ان کے وارے نیارے ہوتے ہیں۔1947 ء سے ہی مغلیہ خاندان حکمران نظر آرہے ہیں ۔میڈیا آزاد تھا لیکن اس پر بھی سرمایہ داروں نے قبضہ کرلیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم جسے چاہیں ہیرو اور جسے چاہیں زیرو بنادیں ۔اٹھارہ کروڑ عوام ان کے غلام ہیں پاکستان کے موجودہ نظام میں میرے جیسے غریب لوگوں کے لیے جگہ نہیں ۔موجودہ جمہوریت جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا کھیل ہے ٹیکس اور ووٹ دینے والے عوام کے لیے کوئی جگہ نہیں پاکستان کو خطرہ بیرونی سے زیادہ اندرونی دشمنوں سے ہے ۔

سراج الحق نے کہا کہ کراچی کا مسئلہ پورے ملک کا مسئلہ ہے ملک میں قانون کی بالادستی نہیں ۔ آئین کے تحت اردوکو ملک بھرکی سرکاری زبان بنایا جانا تھا لیکن ایسا اب تک نہیں ہوا انگریزی ہی رائج ہے ۔ہم نے خیبر پختون خواہ میں اپنی حکومت میں تمام دفاتر میں اردو زبان رائج کردی تھی لیکن اب پھر اس کی جگہ انگریزی رائج کردی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ طاہر پلازہ میں وکلا کوزندہ جلایا گیا لیکن ان کے ورثاء کو اب تک انصاف نہیں مل سکا۔

انہوں نے کہا کہ مجرم مجرم ہوتا ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی زبان یا کسی بھی مسلک سے ہو ،ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسا کمیشن بنایا جائے جس کے ذریعے سے ان لوگوں کی مدد کی جائے جو دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ ہم کسی سے بھی دشمنی کی نہیں ،محبت کی بات کرتے ہیں عوام نے ایم کیو ایم پر دس مرتبہ اعتماد کیا ان کو ایوانوں میں پہنچایالیکن انہوں نے اس عرصہ میں عوام کو کیا دیا۔

سوائے بدامنی کے اور اسی بدامنی کی وجہ سے الطاف حسین کراچی نہیں آنا چاہتے ۔انہوں نے کہا کہ ایک حلقہ میں بھی بائیو میٹرک سسٹم کیوں نافذنہیں کیا جاسکتا ؟ کیا حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں ؟انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم کے لیے ایک ہی تعلیمی نصاب ہونا چاہیے اورا س کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے ہم پانچ بیماریوں کا مفت علاج کرائیں گے اور تیس ہزار سے کم آمدنی والوں کو پانچ بنیادی چیزوں پر سبسڈی دیں گے اور اسٹیٹس کو ختم کریں گے۔ سیاسی جرگہ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس جرگے میں مختلف لوگوں نے مل کرکام کیا اور ہم سب کی کوششوں سے پی ٹی آئی ایوان میں آئی، اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر کوئی ڈکٹیٹر مسلط ہوتا ۔سب نے مل کر مارشل لاء کا راستہ روکا ہے۔