بلوچستان اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان کا شدید احتجاج

قلعہ سیف اﷲ میں بچوں کی ہلاکت کیخلاف ذمہ دار افراد کیخلاف کارروائی کا مطالبہ ،صوبائی وزراء اظہار برہمی

ہفتہ 18 اپریل 2015 22:25

کوئٹہ ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 18اپریل۔2015ء ) بلوچستان اسمبلی کے ہفتے کے اجلا س میں قلعہ سیف اﷲ میں بچوں کی ہلاکت کے بعد حکومتی اور اپوزیشن ارکان کا شدید احتجاج ہوااور ذمہ دار افراد کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیااجلاس میں صوبائی وزراء کی شدید برہمی تفصیلات کے مطابق بلوچستان صوبائی اسمبلی کا اجلاس ہفتے کی سہ پہر اسمبلی کے سپیکر میر جان محمد جمالی کی صدارت میں شروع ہوا صوبائی وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے قلعہ سیف اﷲ میں پانچ بچوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے جلد رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی جائے گی ، ابتدائی معلومات کے مطابق ہلاکتیں ویکسین سے نہیں بلکہ ہیضے سے ہوئی ہیں،ایسے غیر ذمہ دارانہ رویے اور بیانات سے گریز کیا جائے جس سے وبائی امراض کے خلاف چلائی جانے والی مہم پر منفی اثرات مرتب ہو۔

(جاری ہے)

اجلاس میں حکومتی رکن عارفہ صدیق نے پوائنٹ آف آرڈر پر بتایا کہ خسرہ ویکسین کے باعث قلعہ سیف اﷲ میں 5 بچوں کی اموات ہوئی ہیں لواحقین نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ اموات ویکسین کی وجہ سے ہوئی ہیں جبکہ محکمہ صحت وجوہات دست اور قے بتارہی ہے جس سے لواحقین مطمئن نہیں ایسی کمیٹی بنائی جائے جس سے لواحقین مطمئن ہو۔ صوبائی وزیر واسا نواب ایاز خان جوگیزئی نے کہاکہ یہ بات افسوسناک ہے کہ پانچ پھول جیسے بچے جو غفلت کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے اور پھر اس کی جو وجہ بتائی جارہی ہے اس سے لواحقین سمیت کسی کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اخبارات کے ذ ریعے نااہل ڈاکٹروں ، طبی عملے اور ناقص ادویات کو چھپایا جاسکتا ہے تو یہ غلط ہے۔

سول ہسپتال سے بچوں کو نکال کر سی ایم ایچ صرف اس لئے لے جایا گیا کہ وہاں پر علاج کے بہتر مواقع موجود ہیں ہماری سرکاری ہسپتالوں کی حالت دیکھ کر دکھ ہوتا ہے جو ادویات سرکاری ہسپتالوں میں دی جاتی ہیں ان سے مریضوں کا علاج ہونے کی بجائے موت واقع ہوتی ہے ہسپتال علاج ومعالجے کے لئے نہیں بلکہ سلاٹر ہاؤس میں تبدیل ہوچکے ہیں نااہل اور لاپروا ڈاکٹرز غریب مریضوں کا کوئی پروا نہیں کررہے ہیں سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

قلعہ سیف اﷲ میں بچوں کی ہلاکت کے حوالے سے جو کمیٹی بنائی گئی ہے اس پر بھی کسی کو اعتماد نہیں۔ کمیٹی ایسی بنائی جائے جس میں کوئی ڈاکٹر نہ ہو بلکہ ماہرین پر مشتمل کمیٹی تحقیقات کرکے حقائق سامنے لائیں۔ انہوں نے کہاکہ صرف تعلیم اور صحت کے لئے فنڈز میں اضافہ کرنا کارنامہ نہیں بلکہ رزلٹ دینا ہوگا۔ قلعہ سیف اﷲ کا واقعہ سنجیدگی سے لیا جائے کیونکہ 5 بچوں کی ہلاکت کے بعد دوسرے والدین اپنے بچوں کو ویکسین سے دور رکھیں گے۔

انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ بچوں کی ہلاکت کا واقعہ افسوسناک ہے مگر اس سے زیادہ افسوسناک بات بچوں کی ہلاکت کی وجہ بتائی جارہی ہے حالانکہ بچوں کی ہلاکتیں خراب ادویات کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں ادویات سرنج تک بھی ایکسپائر آرہی ہیں اس حوالے سے سوشل میڈیا بھرا پڑا ہوا ہے معیاری ادویات اگرچہ خرید لی جاتی ہے مگر وہ بازاروں میں بھیج دی جاتی ہیں سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال تباہ کن ہیں اکثر ہسپتالوں میں عملہ اور ادویات تک نہیں میرے حلقے میں طبی مراکز کی حالات انتہائی خراب ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ قلعہ سیف اﷲ میں بچوں کی ہلاکت کے واقعہ کی تحقیقات کے لئے چیف سیکرٹری بلوچستان کی نگرانی میں کمیٹی بنائی جائے اور مرنے والے بچوں کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے۔

پشتونخوا میپ کے رکن صوبائی اسمبلی ولیم جان برکت نے کہا کہ پانچ بچوں کی ہلاکت بڑا سانحہ ہے ادویات کے حوالے سے کئی ماہ سے اخبارات میں خبریں آرہی ہیں مگر ایوان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ حالیہ واقعہ کے بعد میں نے اپنے پوتے کو انجکشن لگوانے سے منع کردیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ واقعہ کی تحقیقات کرائی جائے۔ صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ یہ ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے اس پر پوائنٹ سکورننگ نہ کی جائے بلکہ و اقعہ کی تحقیقات کرائی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں یورپ میں بھی اس قسم کے واقعات پیش آئے تھے جن کی تحقیقات کرائی گئی تھی ہمیں بھی اس کی تحقیقات کرانی چاہیے۔ اپوزیشن رکن سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ ڈاکٹر امیر بخش کو کوئٹہ سے اغواء کیا گیا ہے جس کے بعد ڈاکٹروں نے خسرہ مہم کا بائیکاٹ کرنے کا عندیہ دیا ہے ایسے اقدامات کئے جائیں کہ ڈاکٹر ہڑتال پر نہ جائے ورنہ صورتحال مزید خراب ہوگی۔

انہوں نے بھی بچوں کی ہلاکتوں کے واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ میر عاصم کرد گیلو نے کہا کہ کمیٹی کی رپورٹ سامنے لائی جائے یہ افسوسناک واقعہ ہے وبائی امراض کی روک تھام کے لئے سنجیدہ کوششیں ہونی چاہیے۔ صوبائی وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ ہم ذمہ دار لوگ ہیں اس ایوان اور عوام کے ساتھ کوئی غلط بیانی نہیں کریں گے مسئلے کو جس انداز میں پیش کیا گیا ہے وہ صحیح نہیں ہمارا 35 لاکھ بچوں کا ٹارگٹ ہے اس وقت تک 13 لاکھ بچوں کو ویکسین لگائی جاچکی ہیں۔

8 سال کے بعد یہ سلسلہ شروع کردیا گیا ہے خدا را مسئلے کو منفی انداز میں بیان نہ کی جائے جس کی وجہ سے لوگ متنفر ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ جو بچے مرے ہیں ان کے خاندانوں کے ساتھ ہماری پوری ہمدردی ہے ہمارے بھی بچے ہیں یہ ناقابل برداشت واقعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق ہلاکتیں خسرے ویکسین کی وجہ سے نہیں بلکہ ہیضے کی وجہ سے ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم تحقیقات کررہے ہیں ڈبلیو ایچ او ، صوبائی حکومت اور ممتاز اسپیشلسٹ ڈاکٹروں پر مشتمل بااختیار کمیٹی تشکیل دیدی ہے جو جلد رپورٹ پیش کرے گی اور اس رپورٹ کو ہم ایوان اور عوام کے سامنے لائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ قلعہ سیف اﷲ میں یہ بھی اطلاعات ہیں کہ خسرے ویکسین لگانے کی مہم کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی ویکسین پلائی جارہی تھیں اس دوران لائیو سٹاک ڈاکٹروں نے لوگوں کو منع کیا تھا کہ 2 دن تک جانوروں کا دودھ استعمال نہ کی جائے خدشہ ہے کہ جن جانوروں کو ویکسین دی گئی ہے ان کے دودھ پینے سے بچے متاثر ہوئے ہیں تاہم یہ حتمی رپورٹ نہیں حتمی رپورٹ کمیٹی دے گی جہاں تک بوگس ادویات اور سرنج کی بات ہے میں چیلنج کرتا ہوکہ 15 سال بعد ذمہ دارانہ انداز میں ادویات کی پرچیزنگ کی گئی ہے ہم نے ایم آئی آر ، سیٹی سکین اور دیگر مشینیں خریدی ہیں جس کا ٹینڈر اوپن کردیا گیا ہے کارڈک وارڈ کو فعال کردیا گیاہے پہلی بار دل کے مریضوں کو سرکاری سطح پر سرپرستی کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ مذکورہ ویکسین حکومت بلوچستان نہیں خریدی بلکہ ڈبلیو ایچ او نے ہمیں دی ہیں جس کی یونیسف نے بھی تصدیق کی ہے اس وقت بھی ڈبلیو ایچ او اور یونیسف بھی تحقیق کررہی ہے وہ بھی اپنا رپورٹ پیش کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیسا ممکن ہے کہ اب تک 13 لاکھ بچوں کو ویکسین دی جاچکی ہیں جس میں پانچ چھ ہلاکتیں ہوئی ہیں جبکہ باقی بچے محفوظ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق اگر اس دوران کا سائیڈ ایفکٹ ہو بھی تو وہ لاکھ میں سے ایک بچے پر اثر ہوتا ہے۔ غیر معیاری ادویات کی خریداری کے حوالے سے الزامات کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ کوئی بھی ثابت کردے کہ صوبے میں غیر معیاری ادویات خریدی گئی ہیں البتہ 20 لیٹر پٹرول اور بوگس ادویات کے نام پر ڈائریکٹر یا ایم ایس ڈی انچارج سے 20 لاکھ طلب کرنے والے کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے سابق دور حکومت میں ہسپتالوں میں مشینری اور ادویات تو دور کی بات بستر تک نہیں ہوا کرتے تھے دس سال میں کوئی مشین نہیں خریدی گئی تھی ہم نے مشینری خریدی اور میڈیسن کی خریداری کی نظام میں شفافیت لے آئے۔

بچوں کو سی ایم ایچ منتقل کرنے سے متعلق انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس وینٹی لیٹر نہیں اس وجہ سے ان بچوں کو وہاں منتقل کیا گیا جن کی اخراجات صوبائی حکومت ادا کرے گی۔ اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کی رکن صوبائی اسمبلی کشور جتک نے کہاکہ 24 مارچ کو میرے گھر پر حملہ ہوا جس کی خبریں اخبارات میں بھی شائع ہوئیں مگر یہ بات افسوسناک ہے کہ ہماری پارٹی کے رہنماء سینٹر میر نعمت اﷲ زہری کے علاوہ کسی نے اس کی مذمت تک نہیں کی۔

صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کشور احمد جتک سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں افسوس ہے کہ یہ معاملہ ان کی علم نہیں تھا ورنہ وہ اس کی ضرور مذمت کرتے۔ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ صوبائی اسمبلی صوبے کا ذمہ دار فورم ہے جہاں پورے صوبے کی نمائندگی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بار بار کی یقین دہانیوں کے باوجود باتیں دہرائی جاتی ہیں اور صوبائی حکومت کے حوالے سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ شاید یہاں پر چیزیں شفاف نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک ذمہ دار فورم ہے یہاں پر جو بھی بات کی جائے وہ مکمل معلومات کے بعد درست کی جائے۔ ڈبلیوایچ او ایک عالمی ادارہ ہے جس کا صحت کے حوالے سے ایک اہم مقام ہے اگر ہم اس کی ادویات پر شک کریں گے تو کل کوئی ہم پر کیسے اعتبار کرے گا۔ انہوں نے کہاکہ جہاں تک اراضی کی فروخت کی بات ہے تو کسی میں یہ ہمت نہیں کہ وہ صوبے کی زمینیں بیچیں۔

جذبات میں آکر باتیں نہ کی جائیں بلکہ حقائق کے مطابق بات کی جائے۔ انہوں نے کہاکہ ماضی میں صوبائی اسمبلی کا اجلاس دس دس منٹ تک نہیں چل سکتا تھا اب یہاں مختلف مسائل پر گھنٹوں بحث ہوتی ہے حکومت پر تنقید کی جاتی ہے حکومت پر تنقید کرنا ارکان کا حق ہے مگر یہ ایک دائرے کے اندر ہونی چاہیے جسے ہم خندہ پیشانی سے قبول بھی کریں گے مگر کوئی اٹھ کر کسی کی کردار پر بلاجواز انگلی نہ اٹھائے جسے ہم قبول نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے پہلے بھی اسی فورم سے تمام سیاسی جماعتوں کو یہ دعوت دی تھی کہ اگر کسی ترقیاتی منصوبے میں کوئی کرپشن ہورہی ہے تو ہمیں اس سے آگاہ کریں ہم نے اپوزیشن ارکان کو بھی اس قسم کی پیشکش کی تھی کہ وہ جائے اور منصوبوں کو دیکھیں پر حقائق پر بات کریں ہم آج بھی کہتے ہیں کہ ترقیاتی منصوبوں کو دیکھا جائیں اگر کوئی کرپشن ہے تو بتائے ہم سخت کاروائی کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں بیوروکریسی کی بھی عادت بگڑ گئی ہے ہم تمام خرابیوں کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دو سال قبل سول ہسپتال کی جو حالت تھی وہ آج بہت بہتر ہے مگر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے ہماری یونیورسٹیوں ، کالجوں اور سکولوں میں ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں مگر اب اساتذہ اور طلباء اسکولوں میں آتے ہیں بہتری آئی ہے اور ہم مزید بہتری لانے کے لئے کوشاں ہیں۔

انہوں نے کہاکہ صوبائی اسمبلی صوبے کا سب سے بڑا ایوان ہے جس کی اپنی ایک حیثیت ہے یہاں عوامی نمائندے کی کردار کشی سے گریز کیا جائے اخباری بیانات اور ذمہ دار فورم پر باتوں میں فرق احتیاط کیا جانا چاہیے اخبارات میں آئے روز یہ بیانات چھپتے ہیں کہ صوبے میں 40 لاکھ مہاجرین ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ ہماری اپنی آبادی بمشکل 65 سے 70 لاکھ ہیں اگر 40 لاکھ مہاجر ہیں تو پھر پشتون بلوچ اقوام کہاں ہیں۔

انہوں نے کہاکہ افغان مہاجرین کے کیمپس ختم ہوچکے ہیں حقائق کو دیکھ کر بات کرنی چاہیے ایوان کا وقار ہر حال میں ہم نے برقرار رکھنا ہے۔ انہوں نے اسپیکر سے کہاکہ وہ کسٹوڈین آف دی ہاؤس کی حیثیت سے اسمبلی کے ڈایکورم کو برقرار رکھنے کے لئے کردار ادا کریں۔اسپیکر بلوچستان اسمبلی نے اسمبلی کا اجلاس منگل کی سہ پہر 4 بجے ملتوی کردیا۔