ہم ایسا کراچی بنانا چاہتے ہیں جہاں الطاف حسین بھی بلاخوف وخطر آئیں ٗ سراج الحق

ایم کیو ایم کراچی کے شہریوں کو امن نہیں دے سکی ٗ کراچی کے لوگوں نے متعدد بار ایم کیو ایم پراعتماد کیا ٗ بدلے میں بدامنی کا تحفہ دیا گیا ایک حلقہ میں بھی بائیو میٹرک سسٹم نافذ نہیں کیا جاسکتا کیا حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں ؟بارنے ہمیشہ سیاست اور جمہوریت کا ساتھ دیا ٗامیر جماعت اسلامی کا کراچی بار سے خطاب

ہفتہ 18 اپریل 2015 19:47

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 18اپریل۔2015ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سنیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ہم ایسا کراچی بنانا چاہتے ہیں جہاں الطاف حسین بھی بلاخوف وخطر آئیں،میں کراچی فتح کرنے نہیں اس کے زخموں پر مرہم رکھنے آیا ہوں ۔ایم کیو ایم کراچی کے شہریوں کو امن نہیں دے سکی۔ کراچی کے لوگوں نے متعدد بار ایم کیو ایم پراعتماد کیالیکن انہیں بدلے میں بدامنی کا تحفہ دیا گیا،فیصل کو فیصل موٹا کیوں بنایا گیا اجمل پہاڑی کو اجمل پہاڑی نہیں اجمل قریشی بنائیں گے کیونکہ جب معاشرہ درست ہوتا ہے تو لوگ بھی خود ٹھیک ہونا شروع ہوجاتے ہیں، ایک حلقہ میں بھی بائیو میٹرک سسٹم نافذ نہیں کیا جاسکتا کیا حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں ؟ ۔

بارنے ہمیشہ سیاست اور جمہوریت کا ساتھ دیا،بارکا دروازہ کبھی بھی سیاسی کارکنوں کے لیئے بندنہیں ہواہے ۔

(جاری ہے)

کراچی بار سے خطاب کرنا میرے لیئے اعزازکی بات ہے ۔ان خیلات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کوکراچی بار کی دعوت پر کراچی بار میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر کراچی بار کے صدر نعیم قریشی ،جنرل سیکریٹری کراچی بار ،امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان ،مسلم پرویز اور دیگر بھی موجود تھے امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ جب مارشل لاء ہو اور عوام اور سیاست دانوں کو بولنا مشکل ہو تو بار ایسوسی ایشن ہی وہ مقامات ہوتے ہیں جہاں سیاست دانوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے انسانی حقوق کی مہم بھی یہیں سے چلائی جاتی ہیں ان کا کہنا تھا کہ میں آج ان لوگوں کے درمیان ہوں جنہوں نے ایٹم بم تو نہیں بنایالیکن اس سے بڑھ کر کام کیا اور پاکستان بنایا بابائے قوم بھی پاک وہند ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایماندار اور بہترین وکیل تھے امیر جماعت کا کہنا تھا کہ اٹھارہ کروڑ عوام پر وکلا کا بہت بڑا احسان ہے جب پرویز مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کے آگے سب ب نے سرجھکادیا تھا اس وقت ایک وکیل نے ہی نعرہ مسانہ بلند کیا تھا وکلا تحریک شروع ہوئی تو تاثر تھا کہ یہ جلد ہی بیٹھ جائیں گے لیکن یہ ہمالیہ ثابت ہوئے جماعت اسلامی نے بھی اس تحریک میں وکلا کا ساتھ دیا سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا کہ میں یہاں سینیٹر سینئر وزیر یا کسی اور حیثیت میں نہیں بلکہ ایک امتی کی حیثیت سے یہاں بات کرنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ اعزاز ہی سب سے بڑا ہے ان کا کہنا تھا کہ میں جب تربت کای تو وہان خواتیں نے میری گاڑی کا محاصرہ کرلیا ان میں وہ خواتین تھی جن کے بیٹے ،بچے شوہر لاپتہ تھے انہوں نے مجھے ان کے بارے میں بتایا میں نے ان سے کہا کہ اﷲ نے ایک نظام بنایا ہے اور وہ نظام اسلام ہے اگر یہ نظام نافذ ہوتو یہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مسئلہ قومیتوں کا نہیں لسانی مسئلہ نہیں بلکہ بنیادی مسئلہ ظالم اور مظلوم کا ہے یہ ظالم بلوچوں میں بھی موجود ہیں سندھیوں میں موجود ہیں اور یہ متحد بھی ہیں لیکن مظلوم منتشر ہیں ان کا کوئی پلیٹ فارم نہیں طالم طبقہ لسانیت اور مسلک کے نام پر تقسیم کرکے مظلوم کو لڑواتے ہیں مارشل لا ء ہویا جمہوریت ان کے وارے نیارے ہوتے ہیں ہم ظالم اور ظلم کا خاتمہ چاہتے ہیں مظلوم عوام کو اکھٹا ہونا پڑے گا اسلامی نظام لانا ہوگا ہمیں اس پر سوچنے کی ضرورت ہے انہوں نے کاہ کہ میرے کام ہے کہ معاشرے میں انصاف کا بول بالا کروں امیر جماعت نے کہا کہ پاکستان قومیتوں اور صوبوں کا نام نہیں یہ ایک فلسفہ اور نظریہ کا نام ہے مدینہ جیسی فلاحی ریاست کی جدودجہد کا نام ہے ہندوستان سے جائیداد اور کاروبار چھوڑ کر آنے والے یہ سوچ کر ہی آئے تھے کہ ان کی ہجرت ایک اسلامی ریاست کی جانب سے اس لیے اس ہجرت میں انہوں نے تکالیف برداشت کیں اڑسٹھہ برسوں سے ایک دن کے لیے بھی اسلامی نظام نافذ نہیں کیا گیا انیس سو ستالیس سے ہی مغلیہ خاندان حکمران نظر آرہے ہیں مٹھی بھر اشرافیہ نے یہ فیڈصلہ کیا ہے کہ یہ سیاست اور ہر ادارے پر قابض رہیں میڈیا آزاد تھا لیکن اس پر بھی سرمایہ داروں نے قبضہ کرلیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم جسے چاہیں ہیرو اور جسے چاہیں زیرو بنادین اٹھارہ کرور عوام ان کے غلام ہیں پاکستان کے موجودہ نظام میں میرے جیسے غریب لوگوں کے لیے جگہ نہیں موجودہ جمہوریت جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا کھیل ہے ٹیکس اور ووٹ دینے والوں عوام کے لیے کوئی جگہ نہیں پاکستان کو بیرونی سے زیادہ اندرونی دشمنوں سے ہے سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ کراچی کا مسئلہ پورے ملک کو مسئلہ ہے ملک میں قانون کی بالادستی نہیں حکمران بھی آئین میں وہ دفعات دیکھتے ہیں جہاں ان کا مفاد ہو عوام کے مفاد پر وہ اندھے ہوجاتے ہیں آئین کے تحت اردوکو ملک بھیر کی سرکاری زبان بنایا جانا تھا لیکن ایسا اب تک نہیں ہوا انگریزی ہی رائج ہے ہم نے اپنی حکومت میں تمام دفایتر میں اردو زبان رائج کردی تھی لیکن اب پھر اس کی جگہ انگیزی رائج کردی گئی ہے انہوں نے کہا اس نطام کی وجہ سے حلات یہ ہے کہ سانحہ طاہر پلازہ میں وکلا کو جلایا گیا لیں وکلا ان کو اب تک انصاف نہیں دلاسکے تو عوام کو کیسے حق دلائیں گے ان کا کہن اتھا کہ مجرم مجرم ہوتا ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی زبان یا کسی بھی مسلک سے ہو انہوں نے کہا کہ ضدورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسا کمیشن بنایا جائے جس کی مدد سے ان لوگوں کی مدد کیا جائے جو دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں دہشت گردی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تھٹ مسلط کی گئی ہے میں کراچی آتا ہو تو کہا جاتااہے کہ کراچی فتح کرنے آیا ہو لیکں میں کراچی فتح کرنے نہیں آتا بلکہ زخم خوردہ کراچی پر مرہم رکھنے آتا ہو کراچی نظریاتی شہہ رگ ہے دشہت گردی سے اس کا چہرہ مسخ ہوجاتا ہے ہم کسی سے دشمنی کی نہیں محبت کی بات کرتے ہیں عوام نے ایم کیو ایم پر دس مرتبہ اعتماد کیا ان کو ایوانون میں پہنچایالیکن انہوں ے اس عرصہ میں عوام کو کہا دیا سوائے بدامنی کے اور اسی بدامانی کی وجہ وہ کراچی نہیں آنا چاہتے ہم ایسا کراچی بنائیں گے جہاں الظاف حسین کسی خوف و خطرے کے گھوم سکیں فیصل کو فیصل موٹا کیوں بنایا گیا اجمل پہاری کو اجمل پہاری کیوں بنایا گیا اہم اسلامی نطام میں فیصل کو فیصل اور اجمل پہاڑی کو اجمل صدیقی بنائیں گے کیونکہ معاشرہ درست ہو تو لوگ بھی صحیح ہونے لگتے ہیں انہوں ے کہا کہ ایک حلقہ میں بھی بائیو میٹرک سسٹم نافز نہیں کیا جاسکتا ؟ کیا حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں ؟ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی قوم کے لیے ایک ہی تعلیمی نصاب ہونا چاہیے اورا س کی زمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے ہم پانچ بیماریوں کا مفت علاج کرائیں گے اور تیس ہزار سے کم آمدنی والوں کو پانچ بنیادی چیزوں پر سبسڈی دیں گے اور اسٹیس کو کو ختم کریں گے سیاسی جرگہ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس جرگے میں مختلف لوگوں نے مل کرکام کیا اور ان ہم سب کو کوششوں سے پی ٹی آئی ایوان میں آئی اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر کوئی ڈکٹیٹر مسلط ہوتا سب نے مل کر مارشل لاء کا راستہ روکا۔