اسلام آباد،سابق جج کے بیٹے کا قتل ‘ بااثر ملزمان تفتیش پر اثر انداز ہونے لگے

ہفتہ 18 اپریل 2015 16:02

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 18اپریل۔2015ء) سابق جج کے بیٹے کا قتل ‘ بااثر ملزمان تفتیش پر اثر انداز ہونے لگے ہیں‘ پمز کے ڈاکٹر کی جانب سے پانچ دن بعد دپوسٹمارٹم رپورٹ تفتیشی آفیسر کی مشاورت سے تیار کرنے کی ضد نے مقتول کے والد سابق سیشن جج کو رحم کی اپیلیں کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ اور چیف جسٹس آف پاکستان مقتول کے والد سابق سیشن جج بخت زادہ نے میرٹ پر تفتیش کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے اکلوتے بیٹے کے کو بے دردی سے قتل کردیا گیا اب انصاف کے حصول میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔

تفصیل کے مطابق 8 اور 9 اپریل کی صبح چار بجے کے قریب سابق سیشن جج بخت زادہ کو فون آیا کہ ان کے بیٹے ذیشان زادہ خداداد ہائیٹس کے آٹھویں فلور سے نیچے گر گئے ہیں جو کہ معروف ہسپتال میں موجود ہیں۔

(جاری ہے)

مدعی مقدمہ مقتول کے والد جب اپنی بیوی کے ہمراہ پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے کی وفات ہوچکی ہے پولیس تفتیش کے مطابق مقتول ذیشان بخت کا مقدمہ گزشتہ روز ان کے والد کی مدعیت میں درج کرلیا گیا ہے اور کوشش ہے کہ میرٹ پر انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔

دوسری جانب مقتول ذیشان کے والد سابق سیشن جج بخت زادہ نے اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 18اپریل۔2015ء کو بتایا کہ ان کے بیٹے ذیشان کے دوست غیور خٹک اور حسن جان اور ان کے دیگر دوستوں نے انہیں فون پر بلایا کہ وہ ان کے ساتھ گپ شپ کیلئے آ جائیں مگر میں نے انہیں منع کیا لیکن اصرار کے بعد انہیں بھیج دیا صبح ساڑھے چار بجے کے قریب میرے بیٹے کے نمبر سے کال آئی کہ انکل میں غیور بات کررہا ہوں آپ کا بیٹا شدید زخمی حالت میں معروف ہسپتال میں داخل ہے جو کہ خداداد ہائٹس کے آٹھویں فلور سے نیچے گر گیا ہیؤ بخت زادہ کے مطابق جب وہ ہسپتال پہنچے تو ان کا بیٹا ہسپتال انتظامیہ کے مطابق وہ پہلے ہی مرچکا تھا کیونکہ دماغ میں شدید چوٹ آئی تھی۔

بعد ازاں ذیشان بخت کی لاش کو پمز ہسپتال میں پوسٹمارٹم کیلئے لایا گیا اور پولیس بھی موجود تھی لیکن تدفین کے بعد تقریبا پانچ روز گزرنے کے بعد جب وہ ہسپتال گئے تو ڈاکٹر نصیر نے تفتیشی کو بلایا کہ آجاؤ رپورٹ لکھنی ہے میرے اصرار پر انہوں نے کہا کہ پوسٹمارٹم رپورٹ تفتیشی سے مشاورت کے بعد لکھی جاتی ہے‘ بخت زادہ نے اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔

18اپریل۔2015ء کوب تایا کہ ان کا بیٹا ایبٹ آباد انٹرنیشنل میڈیکل کالج کے فائنل ائیر کے امتحان میں دو پرچوں میں فیل ہوگیا تھا جس پر اب وہ گھر میں تیاری کررہا تھا جب کہ غیور خٹک اور حسن خٹک کے والدین سی ایم ڈبلیو کے اعلیٰ افسران ہیں وہ اگرچہ اس کالج کے طلباء تو نہ تھے مگر میرے بیٹے کے دوست تھے ۔ بخت زادہ نے بتایا کہ جب ہسپتال میں میری بیوی نے غیور خٹک سے سوال کیا کہ اس سے قبل حماد نامی ایک لڑکے کو بھی آپ لوگوں نے خود کشی کے نام پر قتل کیا اوراب میرے بیٹے کو بھی مار ڈالا ہے میں نہیں چھوڑوں گی تو اس وقت ملزمان ہسپتال سے ہی غائب ہوگئے سابق سیشن جج بخت زادہ نے اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔

18اپریل۔2015ء کو بتایا کہ پوسٹمارٹم رپورٹ کے مطابق ان کے بیٹے کو سر میں چوٹ لگی ہے جبکہ آتھویں فلور سے آنے والے لڑکے کو دیگر کوئی چوٹ نہ آئی اور نہ ہی جسم کے حصے کی ہڈیاں ٹوٹیں یہ سوالیہ نشان ہے اور پولیس کو بخوبی علم ہونے کے باوجود وہ ملزمان کی طرف داری کررہی ہے‘ بخت ادہ نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور چیف جسٹس آف پاکستان ناصر الملک سے اپیل کی ہے کہ میرٹ اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ان کے بیٹے کی موت کی غیر جانبدارانہ تفتیش کرکے ملزمان گرفتار کیے جائیں۔

متعلقہ عنوان :