کراچی، جب معاشرہ زوال پذیر ہو ،اخلاقی اقدار کی پاسداری نہ کی جائے تو اخلاق سوز اقدار رواج پاتی ہیں،جسٹس (ر) ڈاکٹر غوث محمد

جمعہ 17 اپریل 2015 21:25

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 17اپریل۔2015ء) جسٹس (ر) ڈاکٹر غوث محمدنے کہا کہ جب معاشرہ زوال پذیر ہو اور اخلاقی اقدار کی پاسداری نہ کی جائے تو اخلاق سوز اقدار رواج پاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ خواتین کو ہراساں کرنے کے حوالے سے قوانین موجود ہیں مگر عوام میں آگاہی نہیں ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین پر تشد د کے حوالے سے معاشر ے میں شعورپیداکیا جائے۔

جب تک لوگوں میں شعور پیدانہیں ہوگا ،قانون موجود ہونے کے باوجود اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکے گا۔معاشرے میں مختلف وجوہات کی وجہ سے اس طرح کے کیسز میں بتدریج اضافہ ہورہاہے جس کے سد باب کے لئے کوشش کرنا ہوگی۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعہ کراچی اور ہائرایجوکیشن کمیشن ماڈرن یونیورسٹی گورننس کے تحت منعقد ہ ورکشاپ بعنوان: ”ہائر ایجوکیشن کمیشن انڈیجنیس اُن کیمپس ٹریننگ“ میں ”ورک پلیس ہراسمنٹ“ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

ورکشاپ کا انعقادانسٹیٹوٹ آف انوائرمینٹل اسٹڈیز جامعہ کراچی میں کیا گیا تھا۔ڈاکٹر غوث نے مزید کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد پنجاب کے علاوہ سندھ ،بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں کوئی قانون سازی نہیں کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے دیگر صوبوں میں قانون وضع کرنا چاہیئے۔ جامعہ کراچی کے رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر معظم علی خان نے انسیڈینٹ انوٹیگیشن کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انویسٹی گیشن کے لئے سب سے ضروری کام یہ ہے کہ آپ کبھی بھی جانبدارنہ ہوں۔

انوسٹی گیشن کا اصل مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ دوبارہ آپ سے واقع کو ہونے سے روکیں۔انہوں نے کہا کہ شور خاموش قاتل ہے جو آپ کی سماعت اورحیات کو بدترین طریقے سے متاثر کرتاہے۔ہمارے ہاں ان مسائل کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور یہی وجہ بڑے حادثات کا باعث بنتی ہے۔انویسٹی گیشن میں اگر وقت پر انصاف نہ ملے توکوئی فائدہ نہیں ہے ۔ضرورت اس امر کی جس آدمی کا جو کام ہو اس سے وہ ہی کام لیا جائے تاکہ انجانے میں کوئی کام کسی غلطی کا باعث نہ بنے۔

عامر عالمگیر نے فائر سیفٹی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آگ لگنے کی صورت سازوسامان بچانے کے بجائے انسانی زندگی کو ترجیحاًبچایا جائے۔اگر آپ کو آگ سے بچنے کی بنیادی معلومات حاصل ہوجائیں تو آپ کا فرض بنتا ہے کہ اسے آگے بڑھائیں ۔انہوں نے کہا کہ سیگریٹ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوتی ہے ۔لہذا جو لوگ سیگریٹ نوشی کرتے ہیں انہیں چاہیئے کہ وہ اسموکنگ ایریا کا انتخاب کریں تاکہ سگریٹ کے دھویں سے براہ راست دوسرے لوگ متاثر نہ ہو۔

کیونکہ اس سے کینسر جیسی مہلک بیماریاں بھی ہوسکتی ہیں۔ڈاکٹر شوکت احمد خان نے فضائی آلودی(Air Pollution ) کے حوالے سے کہا کہ اگر کچرے کو ڈھنگ سے ٹھکانے لگایا جائے تو کسی حد تک فضائی آلودگی سے بچاجاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ تبت سینٹر ،حسن اسکوائر اور لولوکھیت کراچی کے وہ علاقے ہیں جو سب سے زیادہ متاثر ہیں ،آلودگی کی وجہ سے کراچی کا شمار بھی اب دنیا کے ان ممالک میں ہورہاہے جہاں ماحول موٹر آڈر ٹیسٹ کروایاجائے تاکہ اس سے دھویں کو کم کیا جاسکے۔اس میں ٹرک،رکشوں اور جنریٹرز کو بھی دیکھنا چاہیئے کیونکہ موٹر آرڈر ٹیسٹ سے خراب اور زیادہ دھواں دینے والی گاڑیوں کی شناخت ہوجائے گی۔

متعلقہ عنوان :