کراچی کے شہریوں کو ملنے والی اضافی بجلی و پانی بلڈرز و ڈیویلپرز کو فروخت کی جارہی ہے، ماجو سیمینار میں ماہرین کا انکشاف

بھارت کیساتھ تجارت کے معاملہ میں اسے نہایت مناسب ملک کی بجائے میڈیا نے نہایت پسندیدہ قرار دیکر تنازعہ کھڑا کردیا

جمعہ 17 اپریل 2015 17:11

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 17اپریل۔2015ء) کراچی کے شہریوں کو پانی و بجلی کی اضافی سہو لتوں کی فراہمی کا خیال رکھنے کے بجائے نجی شعبہ کے بلڈرز و ڈیویلپرز کی جانب سے سپر ہائی پر واقع زیر تعمیر نئے ٹاونز کو بجلی و پانی کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے، کے الیکٹرک نے پبلک سیکٹر کے ایک نئے بجلی گھر سے کراچی کے شہریوں کو بجلی فراہم کرنے کے بجائے سپر ہائی وے پر زیر تعمیر ایک ٹاون کے ڈیولپرز کو اس کی ساری بجلی فروخت کردی ہے تاکہ اس کے کاروباری مفادات کو فائیدہ پہنچایا جاسکے، جبکہ کراچی کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے بنا ئی جانے والی کے فور اسکیم سے حاصل ہونے والا پانی کراچی کے شہریوں کے بجائے اب سپر ہائی وے پر زیر تعمیر چھ نئے ٹاونز کے مکینوں کو فراہم کیاجائے گا ،افسوس اس بات کا ہے کہ ایک طرف تو کراچی کے شہریوں کو اس بات سے لاعلم رکھا جارہا ہے جبکہ دوسری جانب رائے عامہ کے حلقوں کی جانب سے کراچی کے شہریوں کے ساتھ ان زیادتیوں پر بھی کوئی احتجاج نہیں کیا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

یہ انکشافات معاشی امور کے ماہرین نے محمد علی جناح یونیورسٹی کراچی کی بزنس ایڈمنسٹریشن سیمینار سوسائیٹی کے زیر اہتمام پاکستان کی معیشت کے معروضی مسائل کے موضوع پر منعقد ہونے والے سیمینار سے خطاب کے دوران کئے۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ کراچی کی اکنامکس کے شعبہ کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر صفیہ منہاج نے کہا کہ پاکستان وہ خوش نصیب ملک ہے جو قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہے ، ایک اندازہ کے مطابق پاکستان میں 52 کے قریب معدنیات موجود ہیں مگر یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ ہمیں امریکہ،چین اور دئگر ممالک بتاتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کون کونسے قدرتی وسائل موجود ہیں حالا نکہ یہ ذمہ داری ہمارے اپنے سائینسدانوں اور انجینیرز کی ہے کہ وہ ہمیں اس بارے میں بتائیں لیکن ہمارے ملک میں آج بھی انجینیرز، ڈاکٹرز اور سائینسدانوں کی بے حد کمی ہے جس کو پورا کرنے کو اہمیت دینی ہوگی ۔

انہوں نے کہا کہ کسی ملک کی معیشت کو بہتر بنانے میں بر آمدات و درآمدات میں اضافہ کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے جس کے لئے اردگرد کے موزوں ممالک کو ترجیح دی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں بھارت سے تجارت کے معاملہ میں اسے نہایت معقول ملک قرار دینے کے بائے میڈیا نے اسے نہایت پسندیدہ ملک بنا ڈالا جس پر ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ کراچی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نورین مجاہد نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کے بنیادی مسائل پیداوار ،فزیکل ،ھیومن اور نیچرل کیپیٹل کی کمی،جی ڈی پی کی شرح میں سست رفتار اضافہ،معاشی بد انتظامی، کرپشن،توانائی کا بحران ، کمزورپبلک سروس اور سال 2001-02سے اب تک دہشتگردی کی بنا پر ملک کو سماجی و معاشی شعبوں کو پہنچنے والے 35-40 بلین ڈالرز کے نقصانات ہیں جن پر توجہ دے کر ملکی معیشت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ امر خوش آئیند ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت تھری ایز یعنی انتہا پسندی کے خاتمہ ،توانائی کے بحران پر قابو پانے اورملکی معیشت کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے محمدعلی جناح یونیورسٹی کے بزنس ایڈمنسٹریشن کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمان نے کہ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ چین کے صدر اس ماہ پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں،چین آج کی جدید دنیا میں اقتصادی ترقی کا رول ماڈل ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اس بہترین دوست کے تجربات سے بھر پور فائیدہ اٹھائیں۔

انہوں نے کہا کہ ماجو کے صدر پروفیسر ڈاکٹر عبدالوہاب کی ولولہ انگیز قیادت کی بنا پر زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین اس یونیورسٹی کے سیمینارز سے خطاب کرکے نئی نسل کی بھر پور رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں جس کی بنا پر ہمارے طلبہ کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے

متعلقہ عنوان :