آزاد کشمیر کے معاملات میں فاروق حیدر کو بااختیار ہونا چاہئے برجیس طاہر کو نہیں ،سردار خالد ابراہیم

جمعرات 9 اپریل 2015 12:36

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔09 اپریل۔2015ء) جموں و کشمیر پیپلزپارٹی کے سربراہ سردار خالد ابراہیم نے کہا کہ پاکستانی جماعتیں بنانے میں ہمارا کوئی اعتراض نہیں لیکن آزاد کشمیر میں اتنا اختیار تو دیں کہ ریاست کے فیصلے خود کر سکیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہو ں نے اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی جماعتوں کے آزاد کشمیر کے فیصلے آزاد کشمیر میں ہونے چاہئے جموں وکشمیر پیپلزپارٹی الیکشن کی بھرپور تیاری کر رہی ہے ۔

آزاد کشمیر کے معاملات میں فاروق حیدر کو بااختیار ہونا چاہئے ۔نہ کہ سارے اختیار برجیس طاہر کے پاس ہوں ۔ سکندر حیات قابل احترام ہیں ان کا خاندان چالیس سال مسلم کانفرنس سے وابستہ رہا آخر میں پاکستانی جماعت میں گئے جس دن میاں نواز شریف سے ملاقات ہوئی وہ مطمئن ہو جائیں گے ۔

(جاری ہے)

سردار خالد ابراہیم نے کہا کہ پاکستانی جماعتیں آزاد کشمیر میں قیام سے پہلے میرے پاس آئی تھی میں نے کہا کہ اگر پاکستانی جماعت میں ہی رہنا ہوتا تو پیپلزپارٹی میں ہی رہتے ۔

بحال ہم نے قربانیاں دی ہوئی تھیں انہوں نے کہا کہ وزیر امور کشمیر برجیس طاہر اور فاروق حیدر سے ہمارا کوئی اتحاد نہیں اور نہ ہی ان کے لئے کوئی اتحاد ہوا ۔ ہمارا اتحاد میاں نواز شریف کے ساتھ ہے جو آزاد کشمیر کے لئے نہیں بلکہ پاکستان میں بھی ہے ۔ سردار خالد ابراہیم نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر نے تین بڑے لیڈر سردار ابراہیم ، سردار عبدالقیوم اور کے ایچ خورشید پیدا کئے ۔

انہوں نے کہا کہ ایکٹ 74 میں ہماری لیڈر شپ کا کردار ہے ۔اس کو ری وزٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آئینی معاملات حل کرنے کی ضرورت نہیں ۔ وزیر امور کشمیر کو کشمیر کے حدود دربہ کا ہی پتہ نہیں انہوں نے مزید کہا کہ وزیر امور کشمیر کو چارج ملنے سے پہلے کشمیر کے متعلق کچھ علم نہیں تھا اس لئے ہم کہتے ہیں کہ فیصلے آزاد کشمیر میں ہی ہوں اور پاکستانی جماعتیں ان فیصلوں کی توثیق کریں کیونکہ آزاد کشمیر کے معاملات اور مسائل کشمیری لیدڑ ہی جانتے ہیں اور یہ بھی ہے کہ کشمیری قیادت پاکستان کے مسائل پاکستانی حکمرانوں سے زیادہ جانتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم 2016 مئی تک ( ن ) لیگ اتحادی ہیں اور آئندہ نئی شرائط کے ساتھ اتحادع ہو گا ۔

یمن میں فوج نہیں بھیجنی چاہئے البتہ اگر سعودی عرب پر حملہ ہوا تو فوج جانی چاہئے ۔

متعلقہ عنوان :