زیر التواء مقدمات کیوجہ سے معاشرے میں عدلیہ سے متعلق غلط تاثر ہے،ہمیں ملکر سائلین کا عدالتوں پر اعتماد برقرار رکھنا ہے‘ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

کوئی وکیل چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا، اسے جج نہیں سمجھتا جو بلا خوف و خطر میرٹ پر فیصلے نہیں کر سکتا،کسی نے کرپشن کرنی ہے تو وہ عدلیہ کا ادارہ چھوڑ دے لاہور کی عدالتوں کو بھی لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دلوانے کیلئے واپڈا حکام کو ہدایات جاری کرینگے‘ جسٹس منظور احمد ملک کا استقبالیے سے خطاب

بدھ 8 اپریل 2015 19:29

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔08 اپریل۔2015ء) لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس منظور احمد ملک نے کہا ہے کہ زیر التواء مقدمات کی وجہ سے معاشرے میں عدلیہ سے متعلق غلط تاثر ہے،ہمیں مل کر سائلین کا عدالتوں پر اعتماد برقرار رکھنا ہے، یہ ہماری ذمہ داری اور اس سے ہی بار کی لاج ہے،اسے جج نہیں سمجھتا جو بلا خوف و خطر میرٹ پر فیصلے نہیں کر سکتا،اگر کسی نے کرپشن کرنی ہے تو وہ عدلیہ کا ادارہ چھوڑ دے، کوئی وکیل چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا، ہر وکیل قابل احترام ہے اور ججوں کو چاہیے کہ انہیں تحمل مزاجی سے سنیں،ڈیرہ غازی خان، ملتان، بہاولپور اور ساہیوال کے اضلاع میں متعلقہ حکام کو عدالتی اوقات کار میں لوڈشیڈنگ نہ کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ وہ لاہور کی عدالتوں کو بھی لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دلوانے کیلئے واپڈا حکام کو ہدایات جاری کریں گے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دیئے گئے استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، مس جسٹس عالیہ نیلم ،جسٹس شاہد بلال حسن،پنجاب بار کونسل کی وائس چیئرپرسن فرح اعجاز اور دیگر ممبران سمیت وکلاء کی بڑی تعداد بھی موجود تھی ۔ اپنے خطاب میں چیف جسٹس منظور احمد ملک نے کہا کہلاہور بار میں استقبالیہ انکی زندگی کا اہم دن ہے۔

30 سال پہلے اس بار سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ فیملی بیک گراؤنڈ وکالت سے منسلک نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سا منا رہا مگر سخت محنت اور اللہ رب العزت کی مدد وکرم کی بدولت آج اس مقام پر فائز ہوں۔ کالا کوٹ میری پہچان ہے ، اس کی توہین تو کیا اس پر حرف بھی برداشت نہیں۔ اپنے تمام تر اختیارات وکلاء کی بہتری کیلئے بروئے کار لاؤں گا۔ زیر التواء مقدمات کی وجہ سے معاشرے میں عدلیہ سے متعلق غلط تاثر ہے۔

ہم سب نے مل کر سائلین کا عدالتوں پر اعتماد برقرار رکھنا ہے، ہڑتال والے دن اگر سائلین کے احساسات کا اندازہ لگائیں تو پتا چلے گا کہ انہیں کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جج اور وکیل میں صرف ذمہ داریوں کا فرق ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے سونپی کی گئی ہیں اور یہ پوزیشن تبدیل ہوتی رہتی ہے مگر دونوں میں سے کسی کا بھی احترام کم نہیں ہے۔

انہوں نے لاہور بار اور ہائیکورٹ بار ایسو سی ایشنز کے صدور کی جانب سے بیان کردہ مسائل کے حل کی یقین دہانی کروائی اور کہا کہ وہ اس بار کے مقروض ہیں اور انکا فرض ہے کہ وہ وکلاء کی بہتری کیلئے اپنے احتیارات کو بروئے کار لائیں۔فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ اسے جج نہیں سمجھتا جو بلا خوف و خطر میرٹ پر فیصلے نہیں کر سکتا۔اگر کسی نے کرپشن کرنی ہے تو وہ عدلیہ کا ادارہ چھوڑ دے، یہ درویشوں اور اولیاء کا پیشہ ہے جس میں مظلوم کا ساتھ دیا جاتا ہے اور اسے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے 30 سال عملی زندگی میں دیکھا ہے کہ 97 فیصد وکلاء پروفیشنل ذہنیت رکھتے ہیں مگر محض تین فیصد غلط ذہنیت والے وکلاء کی وجہ سے سارا ماحول خراب ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سینئر وکلاء کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنا مثبت کردار ادا کریں تاکہ اس کلنک سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکے۔فاضل چیف جسٹس نے جوڈیشل افسران کو ہدایات کرتے ہوئے کہا کہ کوئی وکیل چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا، ہر وکیل قابل احترام ہے اور ججوں کو چاہیے کہ انہیں تحمل مزاجی سے سنیں۔

انہوں نے ہڑتال کا کلچر ختم کرنے کیلئے پنجاب بار کونسل اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کو بھی سراہا۔ اس موقع پر لاہور بار کے صدر چودھری اشتیاق اے خان نے فاضل چیف جسٹس کو عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ لاہور کی ضلعی عدلیہ میں زیر التواء مقدمات کو جلد نمٹانے کیلئے وکلاء اپنی معاونت جاری رکھیں گے۔