ایک سال گزرنے کے باوجود عدالتی حکم پر کیوں عملدرآمد نہیں ہوا، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا آئی جی اسلام آبادپر اظہار برہمی

پاکستان اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات کی ممکنہ خرابی کے پیش نظر حکومت سی آئی اے اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے گریزاں ہے، طاہر عالم خان کا عدالت میں بیان

منگل 7 اپریل 2015 22:39

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔07 اپریل۔2015ء) اسلام آباد ہائی کورٹ نے قبائلی علاقے میں امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں دو افراد کی ہلاکت پر وفاقی پولیس کو سابق سی آئی اے سٹیشن چیف جوناتھن بینکس اور سابق لیگل قونصل جان اے رِزو کے خلاف مقدمہ درج کر کے دو روز میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔ منگل کومیر علی کے رہائشی کریم خان کی جانب سے دائر توہین عدالت کی درخواست کی سماعت عدالت عالیہ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کی۔

اس موقع پر آئی جی اسلام آباد طاہر عالم خان جبکہ درخواست گزار کریم خان اپنے وکیل مرزا شہزاد اکبر کے ہمراہ پیش ہوئے۔ سماعت شروع ہوئی تو آئی جی پولیس اسلام آباد نے استدعا کی کہ مقدمے کی حساسیت کے پیش نظر سماعت چیمبر میں کی جائے ، فاضل عدالت نے ان کی استدعا منظور کر لی۔

(جاری ہے)

ان چیمبر سماعت کے موقع پر آئی جی طاہر عالم خان ، ڈپٹی اٹارنی جنرل حسنین کاظمی اور سرکاری وکیل چوہدری حسیب جبکہ درخواست گزار کی جانب سے مرزا شہزاد اکبر موجود تھے۔

فاضل جسٹس نے سابق سی آئی اے سٹیشن چیف جوناتھن بینکس اور لیگل قونصل جان اے رِزو کے خلاف مقدمہ درج نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد پولیس سے استفسار کیا کہ ایک سال گزرنے کے باوجود عدالتی حکم پر کیوں عملدرآمد نہیں ہوا۔ آئی جی طاہر عالم خان نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات کی ممکنہ خرابی کے پیش نظر حکومت سی آئی اے اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے گریزاں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں دفتر خارجہ بھی اہم فریق ہے لہٰذا اس کا موقف بھی سن لیا جائے۔ چیمبر میں سماعت کے بعد فاضل عدالت نے آئی جی پولیس اسلام آباد کو تھانہ سیکرٹریٹ میں مقدمہ درج کر کے دو روز میں ایف آئی آر کی نقل رجسٹرار آفس میں داخل کرانے کا حکم جاری کر دیا۔واضح رہے کہ 31 دسمبر 2009ء کو شمالی وزیرستان میں ہونیوالے ڈرون حملے میں درخواست گزار کریم خان کا بیٹا ذہین اللہ اور بھائی آصف اقبال مارے گئے تھے جس کے خلاف انہوں نے تھانہ سیکرٹریٹ میں مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی مگر ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔

ماتحت عدالت نے بھی کریم خان کی جانب سے دائر 22-A (اندراج مقدمہ) کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 5 جون 2014ء کو ماتحت عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تھانہ سیکرٹریٹ پولیس کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔عدالتی حکم کے باوجود مقدمہ درج نہ کرنے پر کریم خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کر رکھی تھی۔

سماعت کے بعد مرزا شہزاد اکبر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملکی اور عالمی قوانین کے مطابق ڈرون حملے مجرمانہ اقدام ہے جس میں بے گناہ لوگ بھی مارے جا رہے ہیں اور عدالتی فیصلے سے بھی یہ بات ثابت ہو گئی ہے۔ اس فیصلے کے بعد ڈرون حملوں سے متاثرہ دیگر افراد بھی سی آئی اے اہلکاروں کے خلاف عدالتوں سے رجوع کر سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے فیصلے سے ثابت ہو گیا کہ پاکستان کی عدلیہ آزاد ہے اور وہ آئین کے مطابق شہریوں کے حقوق کا تحفظ کر رہی ہے۔

درخواست گزار کریم خان نے کہا کہ آج کا عدالتی فیصلہ ان تمام معصوم شہریوں کی فتح ہے جو امریکی ڈرون حملوں میں مارے گئے۔ بطور پاکستانی شہری مجھے امید ہے کہ مجھ جیسے وزیرستان کے اور لوگوں کو بھی انصاف ملے گا۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ حکام عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے۔(ش خ )