کے ای ایس سی میں ایم کیو ایم مافیا تھی ‘ والد کو مافیا کے خلاف کارروائی پر قتل کیا گیا ‘ عمر شاہد

منگل 7 اپریل 2015 13:14

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔07 اپریل۔2015ء) کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن(کے ای ایس سی) اور موجودہ کے-الیکٹرک کے مقتول مینجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی)شاہد حامد کے بیٹے عمر شاہد نے کہا ہے کہ کے ای ایس سی میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم)مافیا تھی اور ان کے والد کو مافیا کے خلاف کارروائی پر قتل کیا گیا۔نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں عمر شاہد حامد نے کہا کہ دسمبر 1996 میں جب میرے والد ایم ڈی کے ای ایس ای تعینات ہوئے تو اس کا مقصد یہ تھا کہ ادارے کو بحران سے نکالا جائے اور کرپشن کم کی جائے، وہ ادارے کی صفائی کرنا چاہتے تھے اور بطور ایم ڈی کے ای ایس سی کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہتے تھے۔

عمر شاہد نے بتایا کہ جب میرے والد نے ان ایشوز پر ایکشن لینا شروع کیا تو انھیں علم ہوا کہ کے ای ایس سی میں ایک مافیا موجود ہے جو ایم کیو ایم کی آڑ میں چل رہی ہے اور جب بھی میرے والد کوئی ایکشن لینے کی کوشش کرتے، ایم کیو ایم کا کوئی وزیر یا رہنما انھیں ڈرانے دھمکانے کی کوشش کرتا اور یہ کہا جاتا کہ آپ نے کراچی میں رہنا ہے یا نہیں، ساتھ ہی انھیں کہا جاتا کہ جو ہم چاہ رہے ہیں آپ وہ کریں۔

(جاری ہے)

عمر شاہد نے کہا کہ ان کے والد کو دسمبر 1996 سے جولائی 1997 کے دوران ایم کیو ایم کے کئی رہنماں کی جانب سے دھمکی دی گئی، خصوصا مارچ یا اپریل 1997 میں جب شاہد حامد کرپشن میں ملوث کے ای ایس سی کے 42 ورکرز کے خلاف کوئی ایکشن لے رہے تھے، تو اس وقت کے صوبائی وزیر بلدیات فاروق ستار نے انھیں فون کر کے یہ ایکشن واپس لینے کا کہا اور انکار پر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ آپ کو کراچی میں رہنا ہے یا نہیں انھوں نے ایک اور واقعہ بتاتے ہوئے کہا کہ مقتول شاہد حامد نے ایک کرپشن کیس میں ایکشن لیا تو اس وقت کے ایک متحدہ وزیر قاضی خالد نے انھیں دھمکی دی، اس کے علاوہ سینیٹر نسرین جلیل نے بھی ایک سماجی تقریب کے دوران مقتول شاہد حامد کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ آپ مہاجروں کے خلاف ہیں، آپ کو کراچی میں رہنا ہے یا نہیں نسرین جلیل کے شوہر ایم اے جلیل نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہمیں پتہ ہے آپ کے بیٹے کہاں پڑھتے ہیں شاہد حامد نے بتایا کہ جب میرے والد کا قتل ہوا تو ہمیں کوئی شک نہیں ہوا کہ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے کیونکہ اس واقعے سے قبل ادارے (کے ای ایس سی) میں پیش آنے والے واقعات ، میرے والد مجھ سے اور میری والدہ سے شیئر کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ 5 جولائی 1997 میں اس کیس کی ایف آئی آر میں ایم کیو ایم کو نامزد کیا گیا تھا۔

عمر شاہد نے بتایا کہ صولت مرزا کا لندن میں ایم کیو ایم انٹرنیشنل سیکریٹریٹ سے براہ راست رابطہ تھا اور تفتیش کے بعد یہ علم ہوا کہ ان کے والد شاہد حامد کے قتل کے بعد صولت مرزا کے فون سے پہلی یا دوسری کال لندن سیکریٹریٹ کی گئی۔انھوں نے بتایا کہ اس وقت کی تفتیش کے مطابق صولت مرزا کے علاوہ 5 لوگ چالان ہوئے تھے۔ لندن سیکریٹریٹ اورالطاف حسین کے قتل سے منسلک ہونے کے شواہد ملے تھے، لہذا الطاف حسین خودشاہد حامد قتل کیس میں چالان ہیں جبکہ الطاف حسین کے پولیٹیکل سیکریٹری ندیم نصرت بھی اس کیس میں چالان ہوئے، اس کے علاوہ راشد اور اطہر، صولت مرزا کے ساتھ ہٹ ٹیم کا حصہ تھے۔

عمر شاہد نے کہاکہ صولت مرزا کیس میں سامنے آنے والے انکشافات نئے نہیں ہیں یہی بیانات میں نے اور میری والدہ نے عدالت میں دیئے تھے، یہ حقائق گزشتہ 17 برس سے اس کیس کا حصہ ہیں، اگرچہ عوام کے سامنے یہ باتیں اب آرہی ہیں لیکن یہ کئی سالوں سے عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہیں بلکہ صولت مرزا نے بھی اپنے اعترافی بیان میں یہی کہا ہے۔انھوں نے کہا کہ شاہد حامد کیس میں جتنے بھی ملزمان نامزد ہیں، انہیں قرار واقعی سزا ملنی چاہیے ، صولت مرزا اس کی شروعات ہیں جبکہ باقی جتنے بھی ملزمان ہیں، انھیں زیر تفتیش لایا جائے اور سزا دلوائی جائے۔