سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کی نئی انرجی پالیسی ایل این جی کو اس وقت تک قبو ل کرنے سے انکار کرتے ہیں جب تک کہ آئل اینڈ گیس سے متعلق سندھ کامسئلہ حل نہیں ہوجاتا

وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ

پیر 6 اپریل 2015 22:38

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔06 اپریل۔2015ء) سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کی نئی انرجی پالیسی ایل این جی کو اس وقت تک قبو ل کرنے سے انکار کرتے ہیں جب تک کہ آئل اینڈ گیس سے متعلق سندھ کامسئلہ حل نہیں ہوجاتا۔پیر کو وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس وزیراعلیٰ ہاوٴس میں منعقد ہوا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے،اس موقع پراجلاس میں صوبائی وزیر خزانہ و انرجی سید مراد علی شاہ، چیف سیکریٹری سندھ محمد صدیق میمن، سیکریٹری انرجی آغا واصف علی، وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری علم الدین بلو و دیگر نے شرکت کی ۔

صوبائی وزیر خزانہ و انرجی سید مراد علی شاہ نے وزیراعلیٰ سندھ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے اب تک سندھ حکومت کے آئل اور گیس سے متعلق مسائل اور خدشات کو دور نہیں کیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ وزارت پیٹرولیم نے آئی پی سی کے اجلاس کے دوران سندھ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے آئل اور گیس سے متعلق مسائل پر غور کیلئے 7- اپریل کو اسلام آباد میں اجلاس طلب کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس آئی پی سی سی ڈویژن کوبلانا چاہیے جوکہ ان مسائل پر غور کیلئے مجاز ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے پالیسی فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کردہ نئی انرجی پالیسی قبول نہیں کریگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں پہلے سندھ حکومت کے آئل اور گیس سے متعلق مسائل کا تدارک ہونا چاہیے۔انہوں واضح کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت نے آئل اور گیس سے متعلق مسائل ہے جس میں 1 -میسرز اینگرو فرٹیلائیزر کو قدرتی گیس کی رعائتی نرخوں پر فراہمی کے نتیجے میں گیس ڈولپمینٹ سرچارج(جی ڈی ایس) کی مد میں سالانہ 4تا 5ارب روپے کا مالی نقصان ہے۔

2- ایس ایس جی سی ایل/ایس این جی پی ایل کیلئے گیس ٹیرف کی ایڈجسٹمینٹ کیلئے پالیسی گائیڈ لائنس کا اجراء- اس پالیسی کے تحت سندھ حکومت کو گیس ڈولپمینٹ سرچارج(جی ڈی ایس) کی مد میں سالانہ 5تا8ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے۔3- ماری پیٹرولیم کمپنی لمیٹیڈ کے گیس پرائس ایگریمنٹ( جی پی اے) سبوتاز کرنا۔ اس فیصلے کی وجہ سے بھی سندھ حکومت کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ ماری گیس کمپنی کا گیس سرچارج جمع کرنے کی مد میں ایک بڑا حصہ ہے۔

اور ماری گیس کمپنی کے حوالے سے بھی سندھ حکومت کو سالانہ 10- ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔4- گیس انفراسٹریکچر ڈولپمینٹ سیس آرڈیننس کا نفاذ- یہ آرڈیننس آئین کے خلاف ہے اور سپریم کورٹ پہلے ہی جی آئی ڈی سی ایکٹ 2011ء کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔لیکیوفائیڈ قدرتی گیس(ایل این جی) کی درآمد اور اس کے استعمال سے صوبہ سندھ کے انرجی سیکیورٹی بری طرح سے متاثر ہوتی ہے۔

آئین کے آرٹیکل158کے تحت جس صوبہ میں آئل اور گیس پیدا ہوتی ہے اسے ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں اس کے استعمال میں ترجیح دی جائے گی اور اس کی مثال سوان اور زمزمہ گیس فیلڈ ہیں جہاں سے نکلنے والی گیس پنجاب میں ایس این جی پی ایل نیٹ ورک کو منتقل کردی جائیگی۔وزیراعلیٰ سندھ نے صوبائی وزیر خزانہ و انرجی سے کہا کہ وہ وزارت پیٹرولیم کی جانب سے بلائے گئے اجلاس میں شریک نہ ہوں اور آئی پی سی سی ڈویژن کو بتادیں کہ اجلاس کا اہتمام آئی پی سی سی ڈویژن کر سکتی ہے۔