کرکٹ سے 8ماہ دوری ٹارچر تھا، ٹی وی پر ورلڈ کپ دیکھا ، 45 دن تک دل یہی چاہتا تھا کہ ٹی وی میں گھس کر کرکٹ کھیلوں ،نئے باوٴلنگ ایکشن سے کوئی مسئلہ نہیں، امید ہے اب بھی اتنی ہی اچھی باوٴلنگ کروں گا جتنی پابندی سے قبل کی

پاکستان کے مایہ نازآف اسپنر سعید اجمل کافرانسیسی خبر رساں ادارے کو انٹر ویو

اتوار 5 اپریل 2015 13:46

کراچی(اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار5اپریل ۔2015ء ) پاکستان کے مایہ نازآف اسپنر سعید اجمل نے آئی سی سی کی جانب سے باوٴلنگ پر پابندی کے باعث8 ماہ تک کرکٹ سے دوری کو ذہنی اذیت اور ٹارچر قرار دیا ہے۔سعید اجمل کا باوٴلنگ ایکشن8 ماہ قبل سری لنکا میں مشکوک رپورٹ ہوا تھا جس کے باعثآئی سی سی نے ان پر پابندی عائد کر دی تھی تاہم انہوں نے اپنے ایکشن پر سخت محنت کی اور ورلڈ کپ سے قبل اپنا باوٴلنگ ایکشن کلیئر کرانے میں کامیاب ہو گئے۔

پاکستان کی جانب سے دورہ بنگلہ دیش کے لیے اعلان کردہ ٹیم میں انہیں تینوں طرز کے اسکواڈ کا حصہ بنایا گیا ہے۔سعید اجمل نے فرانسیسی خبر رساں ادارے کو انٹر ویو میں کہا کہ کرکٹ کے بغیر رہنا ٹارچر تھا، میں نے آٹھ ماہ تک یہ اذیت برداشت کی اور یہ میری زندگی کا سب سے مشکل وقت تھا۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ اجمل کا باوٴلنگ ایکشن آئی سی سی کی مقررہ 15 ڈگری کی حد سے زیادہ خم کھا رہا تھا جس کے باعث انہوں نے ممتاز آف اسپنر ثقلین مشتاق کے ساتھ اپنے ایکشن پر کام کیا۔

تاہم ورلڈ کپ سے قبل ایکشن کلیئر ہونے کے باوجود میچ پریکٹس نہ ہونے کے سبب وہ ورلڈ کپ اسکواڈ سے دستبردار ہو گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ میں نے ٹیلی ویڑن پر ورلڈ کپ دیکھا اور 45 دن تک میرا دل یہی چاہتا تھا کہ ٹی وی میں گھس جاوٴں اور اپنے ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ مل کرکھیلوں اور اپنا کردار ادا کروں۔’میں محسوس کیا کہ انہیں میری کمی محسوس ہو رہی ہے کیونکہ میں ہمیشہ بیٹنگ پاور پلے میں کافی موٴثر باوٴلنگ کرتے ہوئے وکٹیں حاصل کرتا تھا اور اسی چیز کی ہمارے کھیل میں کمی نظرآئی۔

اجمل نے کہا کہ میں کپتان مصباح الحق سے مستقل رابطے میں تھا اور اپنی نیک خواہشات کے ذریعے ان کا اور دیگر کھلاڑیوں کا مورال بڑھایا کرتا تھا لیکن ٹیم سے دور رہنا بہت تکلیف دہ تھا۔آف اسپنر نے کہا کہ میں نے بہت محنت کی ہے اور نئے باوٴلنگ ایکشن سے کوئی مسئلہ نہیں، مجھے پوری امید ہے کہ میں اتنی ہی اچھی باوٴلنگ کر سکوں گا جتنی میں باوٴلنگ ایکشن پر پابندی سے قبل کرتا تھا۔انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کے لیے مشکل وقت ہے لیکن میرا ماننا ہے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں اور ایک سال میں اپنی بہترین کاوشوں اور محنت سے اس کھیل کو پروان چڑھائیں گے۔

متعلقہ عنوان :