والفقار علی بھٹو کی 36ویں برسی (کل) منائی جائیگی

بھٹو کے دور میں پاکستان کی خارجہ پالیسی جن خطوط پر استوار ہوئی ، ماہرانہ انداز سے ذوالفقار علی بھٹو اسے آگے بڑھاتے رہے وہ مغربی طاقتیں بالخصوص امریکہ کے لئے درد سر تھا، ذوالفقار علی بھٹو زندگی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ

جمعہ 3 اپریل 2015 20:39

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔03 اپریل۔2015ء ) پیپلزپارٹی کے بانی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی 36ویں برسی (آج )ہفتہ کومنائی جارہی ہے اس موقع پرجلسوں اور مختلف تقاریب کا اہتمام کیاجائیگا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو 1957 ءء میں 29سال کی عمر میں پہلی بار اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے سب سے کم عمر رُکن ہونے کا اعزاز ملا۔ بھٹوکو وزارت خارجہ کا قلم دان سپرد کیا گیا تویہ پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کانکتہ آغاز بنا۔

بھٹو کے دور میں پاکستان کی خارجہ پالیسی جن خطوط پر استوار ہوئی اور جس ماہرانہ انداز سے ذوالفقار علی بھٹو اسے آگے بڑھاتے رہے وہ مغربی طاقتیں بالخصوص امریکہ کے لئے درد سر تھا۔ 6/ستمبر1965 ءء پاک بھارت جنگ ذوالفقار علی بھٹو نے بین لاقوامی محاذ پرلڑی اور انڈونیشیا ، سعودی عرب، ایران، ترکی ، عراق، مصر، اردن، الجزائر شام ، سوڈان، یمن، مراکش ، کینیا اور کویت کی حکومتوں کو پاکستان کی اخلاقی اور مالی امداد پر رضامند کیا، اُنہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کا مقدمہ لڑتے ہوئے تاریخی تقریر کی جس کے ایک ایک لفظ سے زندگی کی حرارت اور جذبوں کی سچائی عیاں تھی۔

(جاری ہے)

16/جون1966 ءء کو ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ایوب خان کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ 30/نومبر1967 ءء کو پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ کر پاکستان میں عوامی جدوجہد کاآغاز کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے خود ایک انٹرویو میں اس بات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ میری والدہ نے مجھے غریبوں اور مفلسوں سے آگاہی دی اس کے علاوہ جب میں والد صاحب کے ساتھ دورے پر جاتا تو غریبوں کی حالت دیکھ کر آبدیدہ ہوجاتا، بمبئی اور سندھ کے اندرونی حصوں کی معاشی حالت میں غیر معمولی فرق تھا اسی فرق افلاس نے نقوش میرے ذہن پر اور بھی گہرے کردیئے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے روپ میں پہلا ایسا سیاسی لیڈر اُبھر کرسامنے آیا جس نے سیاست کو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ڈرائنگ روموں سے نکال کر عوام کی دہلیز تک پہنچایا ایک عوامی سیاسی پارٹی بنانے کے لئے ملک کے طول وعرض کے دورے کئے عوام کے ساتھ زمین پر جاکر بیٹھا براہ راست عوام سے رابطے کی ناقابل فراموش تاریخ رقم کی۔ مزدوروں ،کسانوں ، اقلیتوں ،عورتوں اور تمام کچلے ہوئے طبقات کوسراُٹھاکر جینے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کا شعور بخشا۔

پیپلز پارٹی کا بنیادی منشور ایسا بنایا اور ایسے نعرے دیئے جو غریب عوام کے حقوق کے آئینہ دار تھے۔ عالمی سامراج کے تہہ دار استحصال کے چنگل اور جاگیرداروں ، سرمایہ داروں ، فوجی و سول بیوروکریسی کی گرفت سے ریاست اور عوام کو آزاد کرنے کی تحریک بخشی۔ برصغیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ شہید بھٹو نے ایسامنشور پیش کیا جو ملک وعوام کو معاشی وسماجی غلامی اور طبقاتی نظام سے نجات دلانے کا نقیب بن گیا ۔

غریب عوام سے رابطے کے جدید اور نت نئے طریقے اپنائے۔ پسماندہ علاقون میں جاکر عوام سے مکالمہ کیا۔ جلسے ،کارنرمیگنز اور کھلی کچہریوں کا نیٹ ورک قائم کیا۔ سرمایہ داروں ، ساہوکاروں اور چند خاندانوں کے کنٹرول میں رہنے والے صنعتی اور دیگراداروں کو نیشنلائز کرکے عوام کے لئے روزگار کے دورازے کھولے۔ اس وقت کوئی غریب آدمی پاسپورٹ بنانے اور بیرون ملک جانے کاتصور نہیں کرسکتا تھا بھٹو شہید نے دیہاتوں اور چھوٹے شہروں کے لاکھوں افراد کو مشرق وسطی اور دیگر خطوں کے ممالک میں روزگار فراہم کیا۔

غریب عوام کی قسمت تبدیل کردی۔ ہرادارے میں محنت کشوں کی تنظیم سازی کے حق کو بحال کیا۔ مزدوروں کے عالمی دن یوم مئی کو عام تعطیل اور قومی سطح پر متعارف کروایا۔ اپنی ذاتی لاکھوں ایکڑزمین غریب ہاریوں میں تقسیم کی۔ عوام کو طاقت کا سرچشمہ ہونے کا احساس عملی طور پر دلایا۔ جس طرح سوشلزم کے خوف سے سرمایہ دارانہ ممالک محنت کشوں کو مراعات دینے پر مجبور ہوئے اسی طرح پاکستان کے جاگیردار ،سرمایہ دار، ملٹری وسول بیوروکریسی عوام کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوئے ۔

بھٹو شہید کے اسلامی سوشلزم کے نعرے نے عوام دشمن قوتوں کی نیندیں حرام کردیں۔ بھٹو شہید کے عوامی کردار نے ربع صدی سے اسٹیبلشمنٹ کا ظالمانہ نظام میں جکڑے ہوئے عوام کو کھڑ اکردیا اور عالمی سامراج کے انسان دشمن ایجنڈے کو بھی بے نقاب کردیا۔ ناصرف پاکستان کے مظلوم طبقات کوزندہ رہنے اور حقوق حاصل کرنے کا حوصلہ بخشا بلکہ مسلم دنیا اور تیسری دنیا کے ممالک کو بھی غیر وابستہ تحریک سے جوڑ کر عالمی استعمار ی قوتوں کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا پروگرام دیا۔

مغرب کے ممتاز دانشور برٹرینڈرسل نے لکھا کہ مشرق میں وہ ستارہ طلوع ہوچکا ہے جو غریب اقوام کا نجات دہندہ بنے گا لیکن ہم اسے قتل کرادیں گے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ غریب عوام ،مزدوروں ،کسانوں اور مظلوم طبقات کے اس عظیم عوامی لیڈر کو منظر سے ہٹانے کے لئے عالمی سامراج نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ سازشوں کے جال بننے نظام مصطفی کے نام پر چلائی جانے والی تحریک میں امریکی ڈالروں کی برسات کی گئی ۔

تاہم بھٹو شہید نے ڈائیلاگ کی اپنی لافانی صلاحیتوں کے ذریعہ اپوزیشن کو ایک میز پر بٹھا کر صورتحال سنبھال لی تھی لیکن سامراج کے ایجنٹ جنرل ضیاء نے شب خون مار کر پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم کو گرفتار اور عوامی حکومت کو ختم کردیا۔ ایک بے بنیاد اور جھوٹے مقدمے میں بھٹو دشمنی کے مرض میں مبتلا ججوں کے ذریعہ بھٹو شہید کا جوڈیشل مررڈر کیاگیا ۔

4/اپریل کی رات کو عظیم عوامی رہنما، مسلم دنیا اور ترقی پذیر ممالک کے نجات دہندہ کو تختہ دار پر چڑھادیا گیا اور یہ سمجھا کہ بھٹو کا نام لیوا کوئی نہیں رہے گا اور غریبوں کی پارٹی ختم ہوجائے گی ۔ لیکن تاریخ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ عظیم رہنماؤں کو جسمانی طورپر دور کیا جاسکتا ہے مگر ان کا نام اور عوامی جدوجہد کو کبھی ختم نہیں کیاجاسکتا۔

4/ اپریل کو سندھ کے دوردراز علاقے گڑھی خدابخش میں کشمیر سمیت چاروں صوبوں سے آنے والے لاکھوں افراد زندہ گواہی دیتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی عوامی پارٹی کو قیامت تک ختم نہیں کیاجاسکتا تاریخ کے ایوانوں میں ذوالفقار علی بھٹو کی آواز گونج رہی ہے ۔”میں جنرلوں کے ہاتھوں مرناپسند کروں گا تاریخ کے ہاتھوں نہیں۔“ذوالفقار علی بھٹو بچپن ہی سے طبقاتی اونچ نیچ، معاشرتی ناہمواریوں اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف تھے ، ذوالفقار علی بھٹو کو جسمانی طورپر ہم سے جدا ہوئے 36برس بیت گئے لیکن پاکستان کی سیاست سے ذوالفقا ر علی بھٹو کو آج تک جدا نہیں کیاجاسکا۔

ان کی طاقتور آواز آج بھی فضاؤں میں گونج رہی ہے کہ ”کسی فرد واحد کو یہ اختیار نہیں کہ وہ مجھے پاکستان کے عوام سے جدا کرسکے “ دنیا میں چند ایسے عالمی لیڈر گزرے ہیں جنہوں نے اپنی دور اندیشی سے قوموں کی قسمتیں بدل ڈالی ہیں۔ قائداعظم کے بعد پاکستان کو بھی ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں بین الاقوامی سطح کا ایک ذی فہم ،نڈر، دوراندیش اور غیر معمولی سیاسی بصیرت والا لیڈر دیا جن کی خداداد صلاحیتوں نے ملکی سیاست کو ایک نئی عوامی جہت بخشی اپنے دور اقتدار میں نیوکلیئر پروگرام کی بنیاد رکھی جس کی بدولت پاکستان ایٹم بنانے والا پہلا اسلامی ملک ہے اس بارے میں برطانوی صحافی مورڈن کوریر نے اپنی کتاب ”بم کے لئے خریداری“ Shopping for Bomb کی پانچویں قسط میں انکشاف کیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو ایٹمی ہتھیاروں پر صرف مغرب کی اجارہ داری کے خلاف تھے پاکستان کا میزائل پروگرام کا مرہ ائیروناٹیکل کمپلیکس ،ہیوی میکینکل کمپلیکس ،شتاق ائیر کرافٹ ، مارسیکل سفر، قراقرم ہائی وے اور بن قاسم ،پاک اسٹیل مل جیسے پروجیکٹ ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے عوام کودیئے گئے تحفے ہیں۔

اُنہوں نے 1974 ءء میں لاہور میں تاریخی اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کرکے 38 ممالک کے سربراہوں کواکٹھا کیا جس میں لگائے گئے نعرے ”تیل بطور ہتھیار“ نے عالمی سامراج کوہلاکر رکھ دیا تھا اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کو مغرب کے لئے خطرہ سمجھاجانے لگا۔ تاریخ دوطرح کی شخصیتوں کا احسان کبھی نہیں بھولتی اور اُنہیں ہمیشہ زندہ اور یادرکھتی ہے ان میں ایک شخصیت کسی ملک یا نظام کے بانی اور دوسری اپنے وقت کے مصلح کی ہوتی ہے جن میں قائد اعظم بانی پاکستان اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو ایک مصلح کی حیثیت سے پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

یمن ، مصر، فلسطین ، سعودی عرب، عراق اور دیگر ممالک میں ہونے والی خونریزی اور تباہی وبربادی کے تناظر میں بھٹو شہید زیادہ شدت سے یاد آرہے ہیں ۔آج اُن کا جیسا قدآور عالمی رہنماء کہیں نظر نہیں آرہا ہے جو عالمی استعماری قوتوں کے انسان دشمن اور اسلام دشمن ایجنڈے کو روک سکے۔