پی ایف یو جے نے دہشگردی و انتہا پسندی کی کوریج کیلئے اتفاق رائے سے 46نکاتی ضابطہ اخلاق جاری کردیا

ضابطہ اخلاق کاپہلا حصہ ادارہ جاتی موقف ، دوسرا ور تیسرا دہشتگردی و انتہا پسندی کی عمومی اور براہ راست کوریج سے متعلق کسی بھی قسم کی دہشت گردی اور انتہا پسندی عالمگیر انسانی ، تمام مذاہب کی روحانی اقدار اور آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے،دہشتگردی کی کارروائی میں کسی بھی سبب نہتے افراد کو نشانہ بنانا انسانیت کے خلاف جرم ہے،ضابطہ اخلاق کے نکات

جمعہ 3 اپریل 2015 20:38

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔03 اپریل۔2015ء) پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے دہشگردی و انتہا پسندی کی کوریج کے لئے اتفاق رائے سے 46نکاتی ضابطہ اخلاق جاری کر دیا ہے ، صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں اور سینئر صحافیوں کی مشاور ت سے تیار کردہ ضابطہ اخلاق تین حصوں پر مشتمل ہے پہلا حصہ ادارہ جاتی موقف جبکہ دوسرا ور تیسرا حصہ دہشتگردی و انتہا پسندی کی عمومی اور براہ راست کوریج کے بارے میں ہے۔

پی ایف یو جے کی جانب سے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کے پہلے حصے کے مطابق کسی بھی قسم کی دہشت گردی اور انتہا پسندی عالمگیر انسانی اقدار، تمام مذاہب کی روحانی اقدار اور پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے،دہشت گردی کی کارروائی میں کسی بھی سبب نہتے افراد کو نشانہ بنانا انسانیت کے خلاف جرم ہے اوردہشت گردی اور انتہا پسندی کا کوئی بھی جواز نہیں بنتا، خواہ اس کا ارتکاب کرنے والے یا ان کے ہمدرد کوئی بھی منطق پیش کریں۔

(جاری ہے)

ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ منافرت اور تشدد پر اکسانے والے ریاستی یا غیر ریاستی عناصر کے انتہا پسند نظریات کی ہر دستیاب موقع پر مذمت کی جانی چاہیے کیونکہ ذرائع ابلاغ پر برائیوں اور دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مضمرات کے بارے میں عوام الناس کو آگاہ کرنے اور شعور میں اضافہ کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کا رہنما اصول یہ ہونا چاہیے کہ درست اطلاع زندگی لیتی نہیں بلکہ بچاتی ہے۔

اطلاعات کی آزادی اور ان تک رسائی عوامی اقدار ہیں، ہم زیادہ درست اطلاع کے ساتھ زیادہ زندگیاں بچا سکتے ہیں۔جبکہ ضابطہ اخلاق کا دوسرا حصہ جو دہشتگردی کی عمومی کوریک کے اصول پر مبنی ہے جس میں طے کیا گیا ہے کہ ذرائع ابلاغ کے تمام اداروں کو اپنے طور پر دہشت گردی کی رپورٹنگ و تجزیئے بشمول دہشت گردی کے حملوں کی رپورٹنگ اور تصادم زدہ علاقے میں رپورٹنگ کے بارے میں پالیسی وضع کرنے میں معاونت کے لئے پرنٹ/براڈ کاسٹ اور آن لائن میڈیا سے صرف پروفیشنل صحافیوں پر مشتمل ادارتی بورڈ تشکیل دینا چاہیے۔

میڈیا ہاؤسز اس پالیسی کے بارے میں ایک دوسرے کے ساتھ اور پی ایف یو جے جیسی تنظیموں کے ساتھ بھی مشاورت کر سکتے ہیں اس کا مقصد ذرائع ابلاغ کے اداروں اور ملک کے قانون کی طرف سے طے کردہ پالیسی رہنما اصولوں کی روشنی میں ذمہ دارانہ رپورٹنگ، کوریج اور مواد کی اشاعت کو یقینی بنانا ہے۔ اس حصے میں کہا گیا ہے کہ رہنما اصول، پالیسی کی باضابطہ مہر ثبت ہونے کے ساتھ تحریری/دستاویزی شکل میں ہونے چاہئیں اور ذرائع ابلاغ کے اداروں کے ہر صحافی کو اس کے بارے میں لازمی طور پر آگاہ کیا جائے جبکہ اس دستاویز تک عوام کی رسائی بھی ہو،تجربہ کار صحافیوں اور سول سوسائٹی جیسے دیگر متعلقہ فریقین پر مشتمل ایک آزاد میڈیا کمپلینٹ کمیشن تشکیل دیا جانا چاہیے جسے 2008 میں پی ایف یو جے کی طرف سے تجویز کردہ قانونی تحفظ حاصل ہو۔

ضابطہ اخلاق کے مطابق ایسا کوئی مواد شائع، نشر/آویزاں نہیں ہونا چاہیے جس سے دہشت گرد گروہوں، انتہا پسند گروہوں یا افراد، کالعدم تنظیموں یا کسی قسم کی پرتشدد انتہا پسندی کی کارروائیوں اور نظریات نمایاں ہونے یا براہ راست ہمدردی پیدا ہوتی ہو۔ ادارتی بورڈ ادارتی پالیسی اور حکومت کے قوانین کی پیروی کو یقینی بنانے کے لئے دہشت گردی سے متعلق تمام مواد کا جائزہ لے اور کانٹ چھانٹ کرے۔

اس سے ادارہ جاتی ذمہ داری قائم ہو گی۔ضابطہ اخلاق کے تحت ممنوعہ تنظیموں کے بیانات اور انٹرویوز، فرقہ وارانہ اور مسلح تنظیموں یا افراد بشمول نام کی تبدیلی سے فعال ایسی تنظیمیں جن کا منافرت کو ہوا دینے اور تشدد پر اکسانے بشمول میڈیا کے حوالے سے مصدقہ ریکارڈ ہو، کو پرنٹ یا براڈ کاسٹ پر اجازت نہیں ہونی چاہیے بشرطیکہ ادارتی بورڈ کی طرف سے منظور شدہ نیوز ویلیو ہواوردہشت گردی کی کوریج، حملوں کی فوری/براہ راست کوریج تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔

ان حملوں کا شکار اور زندہ بچ جانے والوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے فالو اپ کوریج بھی ہونی چاہیے اور یہ کہ دہشت گردوں کی کارروائیوں کی بناء پر وہ کس طرح متاثر ہوئے۔ فالو اپ کوریج میں ان افراد کی خبریں بھی شامل ہونی چاہئیں جو ان حملوں میں بہادری سے لڑے۔ کارروائیوں میں متاثر ہونے والے نہتے شہریوں کی فالو اپ کوریج بھی ہونی چاہیے۔اسی طرح دہشت گردی کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو خصوصی حساس تربیت اور تصادم زدہ علاقے کی رپورٹنگ کے بارے میں ابتدائی طبی امداد کی تربیت دی جانی چاہیے۔

اورحکومت قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اے ٹی سی پراسیکیوٹرز کو اپنے میڈیا مراکز کے ڈھانچہ کو بہتر بنانا چاہیے تاکہ دہشت گردی سے متعلق مسائل کے بارے میں صحافیوں کو بہتر سہولت اور درست اطلاع مہیا ہو۔اور جب ضرورت ہو، دہشت گردی کی کوریج کرنے والے یا تصادم زدہ علاقوں میں موجود یا وہاں جانے والے میڈیا کے اہلکاروں کو ذرائع ابلاغ کے اداروں کی طرف سے بہترین رائج طریقوں اور پالیسیوں کے مطابق حکومت کی معاونت سے جسمانی تحفظ حاصل ہونا چاہیے۔

اور یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ تصادم کی رپورٹنگ، دہشت گردی یا تصادم زدہ علاقوں کی کوریج میں مصروف عمل تمام میڈیا اہلکاروں کے لئے بھرپور میڈیا سیکورٹی/سیفٹی پروٹوکول اور خطرات کا تجزیہ ہونا چاہیے۔تمام میڈیا ہاؤسز کو اپنے ملازمین کے لئے لائف انشورنس کوریج فراہم کرنی چاہیے، دہشت گردی کے واقعات کی کوریج کرنے والے فیلڈ سٹاف کو بین الاقوامی معیارات کے مطابق انشورنس حاصل ہونی چاہیے اور ڈی ایس این جیز اور تمام فیلڈ سٹاف دہشت گردی اور تصادم کے واقعات کی کوریج کرتے ہوئے بین الاقوامی معیارات کے مطابق بلٹ پروف جیکٹ، ہیلمٹس اور مناسب گیس ماسکس اور دیگر مطلوبہ سامان (مثال کے طور پر میڈیکل کٹس) سے لیس ہونا چاہیے اور دہشت گردی کے واقعات یا تصادم سے نفسیاتی طور پر متاثرہ عملے کو پوسٹ۔

ٹراما مشاورتی خدمات فراہم کی جانی چاہئیں،ایسی کوئی کوریج نہیں ہونی چاہیے جو دہشت گردی کے حملے کے شکار افراد یا عوام کے لئے صدمے کا باعث بن سکتی ہو،ذرائع ابلاغ کے اداروں کو چاہیے کہ وہ والدین کی اس سلسلے میں رہنمائی کریں کہ وہ اپنے بچوں کو دہشت گردی کے بارے میں حساس مواد کے بارے میں کسی براہ راست یا دیگر پروگراموں سے دور رکھیں۔

یہ والدین کے لئے مشورہ/”پی جی اعلان لاتعلقی“ کی شکل میں ہونا چاہیے۔ضابطہ اخلاق کا تیسرا دہشتگردی کی براہ راست کوریج کے رہنما اصولوں پر مشتمل ہے جس کے تحت براہ راست کوریج/ وقوعہ پر موجود رپورٹر کو رپورٹنگ کے اصولوں اور صحافتی اقدار کے بارے میں تربیت دی جانی چاہیے، ہر چینل کے پاس دہشت گردی کے بارے میں رپورٹنگ کے لئے خصوصی نمائندگان ہونے چاہئیں جنہیں تصادم کی رپورٹنگ کے بارے میں خصوصی تربیت حاصل ہو۔

سینٹرل نیوز روم/ڈیسک سٹاف اور نیوز ٹیم کو بھی یہ تربیت دی جانی چاہیے۔ ذرائع ابلاغ کے اداروں کو یہ تربیت فراہم کرنی چاہیے اور حکومت کو اس بارے میں سہولت دینی چاہیے اور قیاس آرائی پر مبنی رپورٹنگ کی حوصلہ شکنی کے لئے دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کے بعد ایک سینئر/خصوصی رپورٹر کو واقعہ اور اس عرصے جب تک رپورٹر اس جگہ تک نہیں پہنچ جاتا، کے درمیانی عرصے میں صورتحال سے نبرد آزما ہونے کی ذمہ داری سونپی جانی چاہیے۔

جبکہ مختلف نوعیت کی رپورٹس کی صورت میں باضابطہ اور معتبر ذرائع سے حقائق پر مبنی بیانات کو سرگرمی سے حاصل کیا جانا چاہیے اور جونہی یہ دستیاب ہو تمام دیگر غیر مصدقہ بیانات پر اسے ترجیح دی جانی چاہیے،براہ راست کوریج کے دوران پرتشدد یا پریشانی سے دوچار کرنے والی تصاویر کی پیش بندی کے حوالے سے ثالثی نظام کو تقویت دی جانی چاہیے۔ اس قسم کی صورتحال میں ذرائع ابلاغ کے اداروں کو اس پر معافی مانگنا اور معذرت کا اظہار کرنا چاہیے۔

ضابطہ اخلاق کے مطابق سیکورٹی فورسز کے آپریشنز کی براہ راست کوریج جس سے آپریشن کو نقصان پہنچ سکتا ہو یا حملہ آوروں کو معلومات فراہم ہو سکتی ہوں، کو تاخیری نظام کے ساتھ نشر کیا جانا چاہیے، تاخیر کا دورانیہ صورتحال کی سنگینی سے مشروط ہو،مستند اور جوابدہ ذرائع کے ذریعے ہی جاں بحق و زخمی افراد کی تعداد کا اعلان ہونا چاہیے ،جاں بحق حملہ آوروں کی کوئی تصویر نشر نہیں ہونی چاہیے،دہشت گردی کے کسی واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج جو پریشان کن ہو یا کسی متوقع ثبوت کی حامل ہو جس سے تحقیق میں معاونت مل سکتی ہو، ادارتی بورڈ کی منظوری کے بغیر نہیں دکھائی جانی چاہیے اور نشانہ بننے والے اور اور زندہ بچ جانے والے افراد سے صرف فلٹرڈ/ایڈیٹ شدہ مواد ہی ٹیلی کاسٹ کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

18 سال سے کم عمر کے کسی متاثرہ /زندہ بچ جانے والے/ملزمان دہشت گرد کا والدین/سرپرست/قانونی اتھارٹی کی اجازت یا ممکنہ طور پر نگرانی کے بغیر انٹرویو نہیں کیا جانا چاہیے۔ضابطہ اخلاق میں یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ عوامی اطلاع (مثال کے طور پر شہریوں کو انتباہ کہ وہ کسی مخصوص علاقے میں داخل نہ ہوں جہاں خطرہ ہو سکتا ہے)، یا امدادی کارروائیوں (مثال کے طور پر خون کے عطیات کے لئے عوام کو اپیل) کے لئے اپیلیں بذریعہ براڈ کاسٹ رپورٹنگ کی جائیں گی ، نشانہ بننے والے افراد یا امدادی کارروائیوں میں شریک یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کا انٹرویو کرنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہیے جبکہ وہ آپریشن میں مصروف ہوں یا کوئی واقعہ جاری ہو (مثال کے طور پر یرغمالی صورتحال)اوردہشت گردی کے حملے کے جواز یا اسے نمایاں کر کے پیش کرنے کے حوالے سے کوئی بھی بیان جو پراپیگنڈا کے ضمن میں آتا ہو، کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے اور اگر ایسا ہو جائے تو میڈیا ادارے کی طرف سے معذرت کی جانی چاہیے۔

ضابطہ اخلاق کے مطابق کسی بھی دہشت گرد کا مخصوص اصطلاح کے ساتھ (مثال کے طور پر طالبان) اسی صورت میں حوالہ دیا جائے اگر کوئی گروہ جو اس اصطلاح کے ساتھ منسلک ہو، حملے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے ،اگر کسی دہشت گرد گروہ سے دہشت گردی کا حملہ منسوب ہوتا ہے لیکن کوئی آزادانہ تصدیق نہیں ہوتی تو اعلان لاتعلقی کا واضح طور پر اظہار کیا جائے گا،”غیر قانونی/کالعدم/ممنوعہ“ یا ”مسلح/عسکریت پسند“ اور ”شدت پسند“ کے سابقوں کا کسی حملے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی صورت میں ریاستی طور پر اعلان کردہ ممنوعہ تنظیم کے نام کا ذکر کرنے سے پہلے اضافہ کیا جانا چاہیے۔

اس ہی طرح حملے کے مرتکب افراد کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے موقع پر موجود سٹاف کے تحفظ کو ملحوظ خاطر رکھا جائے،نشانہ بننے والے/زندہ بچ جانے والوں کی حساس نوعیت کی تفصیلات متعلقہ افراد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مشورے کے بغیر منکشف نہیں کی جانی چاہیں،تصدیق کے بغیر کسی بھی حملے کو فرقہ وارانہ قرار نہ دیا جائے اور نہ ہی اس بارے میں قیاس آرائی کی جائے اورجائے وقوعہ کی کوریج کرنے والے صحافی کسی علاقے یا مواد کو نہ چھیڑیں جو واقعہ سے متعلق ہو کیونکہ اس سے فرانزک ثبوت کو نقصان پہنچے گا،حکام کی طرف سے تصدیق کے بغیر دہشت گردی کے کسی واقعہ کے بارے میں پیشگی قیاس آرائی نہ کی جائے۔

”دھماکے کی آواز سنی گئی“ جیسی رپورٹنگ کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہیے اورکسی واقعہ کی خام فوٹیج تحقیقات میں معاونت کے لئے مناسب طریقہ کار کے ذریعے حکام کو دی جا سکتی ہے۔پاکستان فیڈرل یو نین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ اور سیکرٹری خورشید عباسی نے ”جنگ“سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کی صورت میں ان ایشوز پر میڈیا کوریج کا میعار بہتر ہو اور پروفیشنلزم آئے گا ، یہ ضابطہ اخلاق وقت کی ضرورت تھی جو میڈیا ماہرین ، اساتذہ صحافت ، صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں اور سینئر صحافی کی مشاورت سے بنایا گیا ہے جس پر سب نے مکمل اتفاق کیا ہے ۔

متعلقہ عنوان :