اچھے قانون کا اطلاق نہ ہو تو اسکا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ‘ معاون خصوصی وزیر اعظم

بچوں سے متعلق معاملات میں مثبت پہلوؤں کو اُجاگر کرنے پر تو جہ دینے سے معاشرے میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے بچوں سے متعلق جرائم اور انکے حقوق کے تحفظ کیلئے ٹھوس بنیادوں پر قانون سازی کی جا رہی ہے ‘ اشترو اوصاف علی خان کا خطاب /میڈیا سے گفتگو

جمعرات 2 اپریل 2015 18:55

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔02 اپریل۔2015ء) وزیر اعظم کے معاون خصو صی اشترو اوصاف علی خان نے کہا ہے کہ اچھے قانون کا اطلاق نہ ہو تو اسکا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ،عدالتی نظام میں اچھا قانون اسوقت اچھا ہوتا ہے جب اسکا اطلاق بھی ہوتا ہے ،بچوں سے متعلق معاملات میں مثبت پہلوؤں کو اُجاگر کرنے پر تو جہ دینے سے معاشرے میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے، بچوں سے متعلق جرائم اور انکے حقوق کے تحفظ کیلئے ٹھوس بنیادوں پر قانون سازی کی جا رہی ہے اور وزیر ا عظم کی بھی خواہش ہے کہ بچوں کے حقوق کیلئے قوانین میں بہتری پیدا کی جائے اور اسکے لئے عملی اقدامات کئے جائیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز لاہور میں مقامی ہوٹل میں بچوں سے متعلق جرائم اور انکے حقوق کے موضوع پر منعقدہ تقریب سے خطاب اور بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

تقریب میں سیکرٹری ہیومن رائٹس و اقلیتی آمور پنجاب جاوید اقبال چوہدری ،سیکرٹری سوشل ویلفیئر سندھ شارق احمد، پراسیکیوٹر جنرل بلو چستان طارق محمود بٹ ، آئی جی پولیس بلو چستان ملک خدا بخش اعوان ، یو نیسف کی نمائندہ سارہ کومل، ڈی آئی جی جیل خانہ جات پنجاب ملک مبشر احمد ایڈیشنل رجسٹرار بلو چستان ہائیکورٹ نذیر احمد ، ایس ایس پی ویسٹ کراچی کیپٹن (ر) غلام اظہر ، ایس ایس پی انو سٹی گیشن پشاور قاضی سجاد الدین کے علاوہ مختلف شعبوں کے نمائندوں نے شرکت کی ۔

اشترو اوصاف علی خان نے کہا کہ بچوں کے حقوق کے لئے بہتر قانون سازی کرکے انصاف کا بول بالا کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ امر خوش آئند ہے کہ اس تقریب میں چاروں صوبوں سے پولیس ، جیل خا نہ جات، سوشل ویلفیئرز چائلڈ پرو ٹیکشن بیورو سمیت تمام شعبوں سے متعلق نمائندہ افراد کی شرکت اس بات کی غمازی کرتی ہے ۔ تمام صوبے اور ان سے وابستہ افراد بچوں کی قانون سازی کے حوالے سے گہری دلچسپی اور عزم رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بچوں سے متعلق جرائم اور انکے حقوق کے لئے معا شرے کے تمام طبقات کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہترقانون سازی کے عمل کے لئے ہمیں رہنما اُصول طے کرنا پڑیں گے کہ سب سے پہلے ہمیں اپنے تعلیمی و تد ریسی نصاب میں بچوں کو دوبارہ سے معاشرتی علوم پڑھنا ہوگا۔ انہیں نظم و ضبط ،چھوٹے بڑے کا احترام سیکھانے ، معاشرے کے اندر رہنے کے لئے انکے اندر قوت برداشت پیدا کرنے اور انکی اخلاقی تر بیت پر تو جہ دی جائے ، بچوں سے زیادتی اور دیگر جرائم، کیسوں سے متاثرہ بچوں کو تحفظ دینے کے لئے قانون کی عمل داری میں بچوں کے بیانات ریکارڈ کرنے میں احتیاط برتنے، گواہان کی گواہی کو کس طرح سے لیا جائے، بچوں کے لئے الگ سے جیلوں میں رکھنا ضروری ہے اور جیلوں میں بچوں کو عام جرائم پیشہ افراد سے الگ رکھنے اور انکی تعلیم و تر بیت کا اہتمام کرکے انہیں معاشرے میں کار آمد شہری بنایا جا سکتا ہے ۔

یہ نہ ہو کہ بچے جیل جانے کے بعد جب جیل سے رہا ہوں تو مجرم بن کر نکلیں۔ اس سلسلے میں میڈیا کے صحافی بھی اپنا مثبت متحرک کردار ادا کر سکتے ہیں کہ وہ بچوں سے متعلق جرائم کو کس طرح پیش کریں، میڈیا میں بچوں سے متعلق معاملات میں مثبت پہلوؤں کو اُجاگر کرنے پر تو جہ دینے سے معاشرے میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بچوں کو کارپینٹر کی دکان سے نکالنا ہے تو اسے سکول بھجنے کا اہتمام کرنا ہوگا اور تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو ہنر اور فنی تر بیت دینے کی بھی ضرورت ہے ۔

ایک فنی تعلیم یا فتہ اچھا پلمبر نہ ہو تو اس سے عمارت غیر محفوظ ہو جاتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عدالتی نظام میں اچھا قانون اسوقت اچھا ہوتا ہے جب اسکا اطلاق بھی ہوتا ہے ۔ اچھے قانون کا اطلاق نہ ہو تو اسکا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں پہلے سے چائلڈ پرو ٹیکشن جیسے جو قوانین موجود ہیں اسے بہتر طور پر اسکی اصل رُوح کے مطابق لاگو کیا جائے تو بہتری پیدا ہو سکتی ہے۔ یہ آئندہ نسلوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کو کس طرح سے محفوظ بنا سکتے ہیں، جس سے معاشرہ بھی درست سمت کی طرف گامزن ہو۔

متعلقہ عنوان :