غذائی ضرور پوری کرنے اور موسمی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے بچنے کے لئے زرعی زمینوں کو رہائشی سکیموں میں تبدیل کرنے کے عمل کو روکا جائے،تمام صوبوں کے بیج بنانے والے سسٹم کو بہتر کیا جائے، سندھ سیڈ کارپوریشن کو دوبارہ بحال کیا جائے

ملک بھر سے آئے ہوئے سائنسدانوں کا ًویٹ ٹرولنگ سمینار ً سے خطاب

جمعرات 2 اپریل 2015 16:29

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔02 اپریل۔2015ء ) ملک بھر سے آئے ہوئے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ زراعت کے شعبے کی ترقی اور موسمی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ زرعی زمین کو رہائشی علاقوں میں تبدیل کرنے کے عمل کو روکا جائے اور اس سلسلے میں ایک جامع پالیسی وضع کی جائے تاکہ مستقبل میں آنے والی نسلوں کے لئے غذائی تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔

تمام صوبوں کے بیچ بنانے والے سسٹم کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور سندھ سیڈ کارپوریشن کا دوبارہ احیا کیا جائے تاکہ ملک میں کسانوں تک تصدیق شدہ بیج پہنچایا جائے۔ وہ پشاور میں منعقد ہونے والے ًویٹ ٹرولنگ سمینار 2015 ً سے خطاب کرترہے تھے ۔ یہ سمینار پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل )پی اے آر سی ( اور گندم اور مکئی کی بہتری کے لئے کام کرنے والے ادارے سمٹ اودیگر اداروں کے تعاون سے منعقد کیا گیاتھا۔

(جاری ہے)

یاد رہے کہ یہ سمینار 6مارچ کو کراچی میں شروع ہوا اور آٹھ ہزار کلومیٹر سفر طے کرنے ہوئے ملک کے گندم پیدا کرنے والے کم و بیش40اضلاع سے گزر کر پشاور میں اختتام پذیر ہوا جہاں سائنسدانوں نے زرعی شعبے کو بہتر بنانے اور پیداور بڑھانے کے لئے مختلف تجاویز دیں۔ سائنسدانوں نے کہا کہ کہ اگر زرعی زمین کو رہائشی سکیموں کو تبدیل کرنے کا سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو یہ ملک کے لئے نہایت خطرناک ہوگا۔

انہوں نے تجویز دی کہ تمام صوبوں میں بیج پیداکرنے والے سسٹم کو مزید بہتر کیا جائے اور سندھ میں سیڈ کارپوریشن کو دوبارہ بحال کیا جائے تاکہ تصدیق شدہ بیج کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ بیج بنانے والے پرائیوٹ ادارے اچھے بیج کی زیادہ سے زیادہ مقدار بنائے جبکہ ان تمام اقسام پر پابندی لگائی جائے جو مشکوک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان سائنسدانوں کو نئے ٹیکنالوجی سے متعلق ٹریننگ دی جائے تاکہ وہ اس شعبے کی ترقی کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کریں۔

اس موقع پر خطاب کرے ہوئے زرعی یونیورسٹی پشاور کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظہور اے سواتی نے سائنسدانوں کی سراہا کہ وہ ایک ماہ تک ملک کے طول عرض میں سفر کرتے رہے اور کسانوں سے ملک کر زراعت کی ترقی کے لئے کوشاں رہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جب ملک کے ہر شعبے میں مندی چھائی ہوئی ہے زراعت واحد شعبہ ہے جو ترقی کی طرف گامزن ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ سمینار کے اختتام پر سائنسدانوں کی جانب سے پیش کی جانے والی تجاویز سے پالیسی سازی میں مددملے گی۔

اس موقع پر ویٹ کے قومی کاآرڈینیٹر ڈاکٹر عتیق الرحمان رتو نے ملک بھر سے آئے ہوئے سائنسدانوں کو ایک ماہ تک جاری رہنے والے سمینار سے آگا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر سے آئے ہوئے زرعت کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے 22سائنسدانوں نے حصہ لیا اور مختلف اداروں، کمپنیوں اور کھیتوں کا دورہ کیا اور کسانوں سے مل کر ان کے مسائل جانے تاکہ زراعت کے لئے وبنائی جانے والی حکمت عملی کو مزید بہتر بنایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ زراعت کے شعبے کو اب بھی کئی مسائل درپیش ہیں جن میں صحیح کوالٹی کا بیج، کھادوں کا بے جا استعمال، مناسب ٹیکنالوجی کا نہ ہونا، لاعلمی اور کسانوں اور سائنسدانوں کے درمیان صحیح رابطہ نہ ہونا قابل ذکر ہے۔ اس موقع پر پی اے آر سی کے ممبر پلانٹ سائنسز ڈاکٹر شاہد مسعود ہے کہا کہ سمینار کے آخر میں پیش کی جانے والی تجاویز پر عمل درامد ضروری ہے تاکہ زراعت کی صحیح معنوں میں ترقی کو یقینی بنایا جاسکے۔ سمٹ کے ملکی نمائندے ڈاکٹر امتیاز احمد نے کہا کہ اس کا ادارہ پاکستان کے زراعت سے متعلق تمام اداروں سے مکمل تعاوہ کرے گا تاکہ اس شعبے کو مزید بہتر کیا جاسکے۔

متعلقہ عنوان :