سیالکوٹ میں بھائیوں کا سرعام قتل، سات مجرمان کے ڈیتھ وارنٹ

Fahad Shabbir فہد شبیر بدھ 1 اپریل 2015 19:32

سیالکوٹ میں بھائیوں کا سرعام قتل، سات مجرمان کے ڈیتھ وارنٹ

سیالکوٹ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔1اپریل۔2015ء) پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں انسداد دہشت گردی عدالت نے بھرے مجمے اور پولیس کی موجودگی میں دو بھائیوں حافظ مغیث اور منیب پر تشدد کر کے انھیں قتل کرنے کے جرم میں سات مجرمان کے ڈیتھ وارنٹ جاری کر دیے ہیں۔ مجرمان کو آٹھ اپریل کو پھانسی دینے کا حکم جاری کیا گیا ہے تاہم اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جا سکتی ہے۔

اگست2010 میں سیالکوٹ کے بٹر گاؤں میں دو سگے بھائیوں 18 سالہ حافظ مغیث اور 15 سالہ مینب کو ڈاکو قرار دے کر ایک مشتعل ہجوم نے ڈنڈے مار کر ہلاک کر دیا تھا اور ان کی لاشیں چوک میں لٹکا دی تھی۔اس موقع پر پولیس اہلکار بھی وہاں موجود تھے۔ ستمبر 2011 میں گجرانوالہ کی انسداد دہشتگردی عدالت نے واقعے میں ملوث سات افراد کو چار چار مرتبہ سزائے موت اور چھ ملزمان کو چار چار بار عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

(جاری ہے)

جبکہ کوتاہی برتنے پر سابق ڈی پی او سیالکوٹ وقار چوہان سمیت نو پولیس اہلکاروں کو تین تین سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ اس فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیاگیا تھا۔بدھ کو ڈیتھ وارنٹ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کا 2011 کا فیصلہ برقرار رکھنے کے بعد جاری کیے گئے۔ عدالت نے پھانسی کے لیے آٹھ اپریل کی تاریخ مقرر کی ہے تاہم اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جا سکتی ہے۔

اس واقعے کی فوٹیج نجی چینلز پر نشر کیے جانے کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے دونوں بھائیوں کی ہلاکت کا ازخود نوٹس لیا تھا۔ جسٹس ریٹائرڈ کاظم ملک نے واقعے کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ہلاک ہونے والے دونوں بھائی ڈاکو نہیں تھے۔جس وقت انھیں تشدد سے ہلاک کیا گیا اس وقت ان کے خلاف کسی تھانے میں کوئی مقدمہ درج نہیں تھا۔

پولیس جائے حادثہ پر پہنچ کر خاموش تماشائی بنی رہی اور پولیس اہلکاورں دونوں بھائیوں کو قتل کرنے کا موقع فراہم کیا۔ پاکستان میں 2008 سے سزائے موت پر پابندی عائد تھی تاہم 16 دسبمر کے پشاور سکول حملے کے بعد سے یہ پابندی اٹھا لی گئی ہے اور گذشتہ چار ماہ میں تقریباً 50 سے زائد مجرمان کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے۔ اس تناظر میں خیال کیا جا رہا ہے کہ کئی سال تک التوا کا شکار رہنے والے اس مقدمے پر اب تیزی سے پیش رفت ہو سکتی ہے۔

متعلقہ عنوان :