پولیس افسران عوام کو تحفظ فراہم کر نے کیلئے دبنگ افسر بنیں  ہفتے کے اندر گشت کے نظام کو بہتر بنایا جائے  وزیر داخلہ کی ہدایت ،

ہفتوں مہینوں نہیں منٹوں میں مجرمان کو قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے  پولیس کو کار کر دگی دکھانے کیلئے مزید مہلت نہیں ملے گی  بدنیتی اور فرائض سے دانستہ غفلت برداشت نہیں کی جائے گی بہتر کام کر نے والے ہی پولیس میں رہیں گے  کسی افسر کو دھرنے کے دوران طاقت کے استعمال کا حکم نہیں دیا گیا، مشکل وقت میں اپنی ذمہ داری نبھانے کی بجائے فرائض سے بھاگ جانے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے چوہدری نثار علی خان کا اجلا س سے خطاب

پیر 30 مارچ 2015 23:09

پولیس افسران عوام کو تحفظ فراہم کر نے کیلئے دبنگ افسر بنیں  ہفتے کے ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔30مارچ۔2015ء) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ پولیس افسران عوام کو تحفظ فراہم کر نے کیلئے دبنگ افسر بنیں  ہفتے کے اندر گشت کے نظام کو بہتر بنایا جائے  ہفتوں مہینوں نہیں منٹوں میں مجرمان کو قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے  پولیس کو کار کر دگی دکھانے کیلئے مزید مہلت نہیں ملے گی  بدنیتی اور فرائض سے دانستہ غفلت برداشت نہیں کی جائے گی بہتر کام کر نے والے ہی پولیس میں رہیں گے  کسی افسر کو دھرنے کے دوران طاقت کے استعمال کا حکم نہیں دیا گیا، مشکل وقت میں اپنی ذمہ داری نبھانے کی بجائے فرائض سے بھاگ جانے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

پیر کو یہاں اسلام آباد پولیس کے افسران سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری طرف سے پولیس کو ہر طرح کی آزادی دینے کے باوجود کارکردگی میں صرف 20 سے 25 فیصد بہتری آئی ہے جبکہ کارکردگی میں اگر 100 فیصد نہیں تو کم از کم 70 فیصد بہتری آنی چاہیے اور یہ جوبہتری آئی ہے، یہ بھی پٹرولنگ کا نظام بہتر ہونے سے آئی ہے۔

(جاری ہے)

وزیر داخلہ نے کہا کہ پولیس میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے کارکردگی پر منفی اثر پڑتا ہے تاہم گزشتہ پونے دو سال کے دوران میری یا میری وزارت کے سیکرٹری کی طرف سے پولیس میں کسی اہلکار کے تبادلے یا کسی اور مقصد کیلئے سفارش نہیں کی گئی، نہ کسی پولیس افسر کو مسلم لیگ (ن) کے حامیوں کو نوازنے یا مخالفین کو رگڑا دینے کے لئے کوئی احکامات دیئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے پیشہ ورانہ اہلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اعلیٰ افسران کا تقرر کیا، کسی کو ذاتی طور پر جانتا تک نہیں تھا، اس کے باوجود پولیس نے اس سطح کی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی اس سے توقع تھی۔ انہوں نے پولیس افسران کو آگاہ کیا کہ وہ اپنے اندر حقوق العباد کی ادائیگی اور اللہ کے آگے جوابدہی کا احساس پیدا کریں انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ تھانوں کو شہر میں ہونے والے جرائم کی خبر ہی نہیں ہوتی اور میڈیا کے ذریعے آگاہی ہوتی ہے اور خود وزیر داخلہ کے نوٹس پر پولیس حرکت میں آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کلب کے قریب ڈکیتی اور جناح سپر میں فائرنگ جیسے واقعات سے متعلقہ افسران لاعلم ہوتے ہیں اور جب میں خود نوٹس لیتا ہوں تو پولیس کارروائی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کی نفری آبادی کے تناسب سے دنیا کے بہت سے شہروں کے مقابلے میں بہتر ہے، خاص مواقع پر پنجاب پولیس اور ایف سی کی اضافی نفری بھی مدد کے لئے موجود ہوتی ہے، پولیس میں نفری کی کمی کو بھی پورا کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے پولیس افسران پر زور دیا کہ وہ اپنے یونیفارم کی لاج رکھیں،ناکوں پر کھڑے اہلکار چوکس ہو کر اپنے فرائض سر انجام دیں، افسران دفتروں سے باہر نکلیں، ہر ایس ایچ او کو اپنے علاقے کے بارے میں مکمل علم ہونا چاہیے، پولیس اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے۔ انہوں نے اجلاس میں شریک ایس ایچ اوز، ایس ڈی پی اوز اور سینئر افسروں کو متنبہ کیا کہ وہ مکمل اختیار اور آزادی کے ساتھ مستعدی سے اپنے فرائض سر انجام دیں بصورت دیگر انہیں اپنے عہدے چھوڑنا ہوں گے۔

انہوں نے واضح کیا کہ اسلام آباد میں پولیس میں وہی افسر رہے گا جو کام کرے گا اور جو کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا وہ لکھ کر دیدے اور وردی اتار کر گھر بیٹھ جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد پولیس کو ڈرانا نہیں، نہ ہی وہ کسی کو غلطی کی سزا دیں گے تاہم بدنیتی اور فرائض سے دانستہ غفلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کو کام کرنے کی اتنی آزادی اس سے قبل کبھی نہیں ملی حتیٰ کہ اس سے قبل ہماری حکومت میں بھی پولیس کو اتنی آزادی حاصل نہیں تھی۔

انہوں نے پولیس افسران کو تاکید کی کہ وہ حق حلال، حقوق العباد کی ادائیگی کا راستہ اختیار کریں اور عزت اور نیک نامی کو اپنا اثاثہ بنائیں اور اجلاسوں میں زیادہ وقت صرف کرنے کی بجائے دفتر سے نکل کر سڑکوں پر اور اپنے اپنے علاقوں میں گشت کو معمول بنائیں، اعلیٰ افسران ناکوں کو خود چیک کریں، اچھا کام کرنے والے اہلکاروں کی حوصلہ افزائی اور درست کام نہ کرنے والوں کی اصلاح یا تادیبی کارروائی کریں۔

وزیر داخلہ کو مختلف شہری تھانوں کے ایس ڈی پی اوز، اے ایس پیز، ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز نے اپنی اپنی ذمہ داریوں اور علاقوں کے بارے میں بتایا۔ وزیر داخلہ نے ہدایت کی کہ جو ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دینے کی اہلیت نہیں رکھتے وہ اہل لوگوں کیلئے جگہ خالی کر دیں، پہلی ترجیح کے طور پر شہری تھانوں میں پٹرولنگ کا نظام بہتر بنایا جائے، امن عامہ کو برقرار رکھنے میں کسی سفارش، دباؤ یا شخصیت کو خاطر میں نہ لایا جائے، بازاروں اور مارکیٹوں کی سیکورٹی فول پروف ہونی چاہیے اور کسی واقعہ کے بعد سیکنڈز کے اندر آگاہی کا نظام وضع کیا جائے۔

وزیر داخلہ نے ایس ایچ اوز پر زور دیا کہ وہ عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے دبنگ افسر بنیں تاکہ وہ عوام میں ایک ہیرو کا درجہ حاصل کر سکیں اور لوگ ان کو عزت و احترام دیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں مجرم کو پکڑنے اور اس کا راستہ روکنے کے لئے بیریئرز لگائے جائیں تاکہ کسی جرائم پیشہ کے واردات کے بعد فرار کو ناممکن بنایا جا سکے اور پولیس منٹوں کے اندر مجرم کو گرفت میں لا سکے۔

انہوں نے کہا کہ بگڑے ہوئے رئیس زادوں اور بدقماشوں کی سرگرمیوں کو برداشت نہیں کیا جائیگا، وفاقی دارالحکومت میں ایک اچھا اور پر امن ماحول فراہم کیا جائے۔ انہون نے افسران پر زور دیا کہ وہ اسلام آباد پولیس کو ماڈل پولیس بنا کر دکھائیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس اپنی کارکردگی بہتر بنائے گی تو ان کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی اضافہ کیا جائے گا، دہشت گردی اور عام جرائم سے نمٹنے کے لئے الگ الگ حکمت عملی وضع کی جائے، ایک ہفتے کے اندر اس حوالے سے تھانوں کی سطح پر اقدامات کر کے آگاہ کیا جائے، دہشت گردی کے خلاف سریع الحرکت فورس کو زیادہ سے زیادہ سات منٹ کے اندر موقع پر پہنچنا چاہیے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں دھرنے کے عروج پر اعلیٰ افسر نے کام کرنے سے انکار کردیا اور اپنی پوزیشن چھوڑ دی اور بعد میں یہ موقف اختیار کر لیا کہ طاقت کا استعمال نہ کرنے کا مشورہ دینے پر انہیں ہٹایا گیا وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ افسر جو یہ موقف اختیار کر رہے ہیں وہ سر پر قرآن رکھ کر بتائیں کہ کس نے انہیں مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی ہدایت کی۔

انہوں نے کہاکہ پولیس کا کام کسی حملے کی صورت میں تحفظ فراہم کرنا ہے اگر کوئی سپاہی جنگ کے دوران میدان چھوڑ کر بھاگ جائے تو اس کا کورٹ مارشل کیا جاتا ہے اگر کوئی پولیس افسر اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریاں ادا کرنے سے انکار کر دے اور مشکل وقت میں ذمہ داریاں چھوڑ کر بھاگ جائے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

متعلقہ عنوان :