جسٹس جواد ایس خواجہ سے انصاف کی توقع نہیں، اس لئے مقدمہ کو کسی اور بینچ میں منتقل کیا جائے،بیر سٹر علی ظفر کی استدعا

پیر 30 مارچ 2015 16:54

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔30مارچ۔2015ء ) سپریم کورٹ کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے بطور وکیل اپنا بنیادی حق مجروح ہونے پر چیف جسٹس آف پاکستان کو درخواست بھجوادی ہے اور ان سے استدعا کی ہے کہ انہیں جسٹس جواد ایس خواجہ سے انصاف کی توقع نہیں اس لئے مقدمہ کو کسی اور بینچ میں منتقل کیا جائے ۔ انہوں نے درخواست بحریہ ٹاؤن بنام محکمہ جنگلات پنجاب اراضی تنازعہ کیس میں دائر کی ہے ۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جسٹس جواد ایس خواجہ سے انصاف کی توقع نہیں اس لئے اس مقدمہ کو کسی اور بینچ میں منتقل کیاجائے ۔ ویسے بھی سپریم کورٹ ملک ریاض بنام ڈاکٹر ارسلان افتخار (سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے )کے مقدمہ میں قرار دے چکی ہے کہ شفاف ٹرائل ہر فرد کا بنیادی حق ہے جس سے انکار نہیں کیاجاسکتا ۔

(جاری ہے)

اس لئے اس مقدمہ میں بھی انصاف کے تقاضوں کو پورا کیاجائے ۔

بیرسٹر علی ظفر کی جانب سے چیف جسٹس کو بھجوائی جانے والی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن اور محکمہ جنگلات پنجاب کے درمیان اراضی تنازعہ اس وقت ماتحت عدلیہ میں زیر سماعت ہے ۔ سپریم کورٹ میں اس مقدمہ کے حوالے سے درخواست دی تھی کہ اس کی سماعت کو ملتوی کیا جائے اور یکم اپریل کے بعد کسی ہفتے میں سماعت کیلئے مقرر کیا جائے اور آپ نے بطور چیف جسٹس پاکستان ان کی جانب سے التواء کی درخواست منظور کی تھی اور اس مقدمہ کو التواء میں رکھنے کا حکم جاری کیا تاہم جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں بینچ نے پچیس مارچ 2015ء کو نہ صرف مقدمے کی سماعت کی بلکہ وکیل کی جانب سے التواء کی درخواست بھی قبول نہیں کی حالانکہ یہ التواء بھی آپ نے ( چیف جسٹس آف پاکستان ) دیا تھا مذکورہ مقدمہ میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے بہت سی آبزرویشن بھی دیں بلکہ ایک عبوری ریلیف بھی دے دیا جو ان کے موکل بحریہ ٹاؤن کو عدالتوں سے حتمی فیصلے میں نقصان کا باعث بن سکتا ہے ۔

چیف جسٹس آف پاکستان سے التواء کی منظوری کے باوجود مذکورہ مقدمہ جسٹس جواد ایس خواجہ کے بینچ میں آج منگل کو سماعت کیلئے مقرر کردیا ہے ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس مقدمہ کو ڈی لسٹ کیا جائے اور کسی اور بینچ میں مقرر کیا جائے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی ہدایات پر محکمہ جنگلات پنجاب نے اراضی کی واپسی کیلئے کارروائی شروع کررکھی ہے اور وہ پرائیویٹ گھروں میں جا کر اراضی لے رہے ہیں ۔

درخواست میں مزید موقف اختیار کیا گیا ہے کہ چونکہ جسٹس جواد ایس خواجہ پہلے ہی اس مقدمے میں محکمہ جنگلات پنجاب کو کارروائی کی ہدایات جاری کرچکے ہیں ایسی صورت میں وہ اپنا فیصلہ اپس نہیں لینگے اس لئے ان سے اب انصاف کی توقع نہیں وہ ویسے بھی فیصلہ دے چکے ہیں ان کے حکم پر عمل ہوکر رہے گا لہذا اس مقدمے کو کسی اور بینچ میں مقرر فرمایا جائے اور پہلے ان کی معروضات کو سن لیا جائے اور پھر کوئی فیصلہ کیاجائے ویسے بھی وہ ملک سے باہر ہیں اور انہیں واپس آنے دیں عدالت یہ مقدمہ کی کارروائی ان کو سنے بغیر آگے نہیں بڑھا سکتی ۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے پی ایل ڈی 2012 ایس سی 664ملک ریاض بنام ڈاکٹر ارسلان افتخار تنازعہ میں یہ قرار دے چکے ہیں کہ شفاف ٹرائل ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور اس بنیاد پر ڈاکٹر ارسلان افتخار کیخلاف کارروائی نہیں کی گئی تھی ۔ چیف جسٹس آف پاکستان اس مقدمے میں پہلے ہی التواء کی درخواست منظور کرچکے ہیں جس کی پابندی کرنا سپریم کورٹ کے تمام ججز بینچز کیلئے ضروری ہے جب ایک بار کسی مقدمے میں التواء کی درخواست منظور کرلی جائے تو یہ طے شدہ عدالتی عمل ہے کہ اس طرح کے مقدمے کو بغیر کسی سماعت کے ملتوی کیاجائے گا اور یہ بھی قانون ہے کہ اگر کوئی وکیل نے التواء لے رکھا ہو تو اس دوران مذکورہ مقدمہ میں مذکورہ تاریخ پر نہ تو کوئی عبوری ریلیف کسی کو دیاجاسکتا ہے اور نہ ہی اس بارے کوئی آبزرویشن دی جاسکتی ہے اس سے انصاف سے مکمل محرومی ہوسکتی ہے او رکسی کو اس کا دفاع کا موقع نہ دینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔

انصاف اس طرح کیاجانا چاہیے کہ وہ ہوتا ہوا نظر آئے ۔ درخواست کے اختتام پر فاضل وکیل نے چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کی ہے کہ بطور وکیل ان سے انصاف نہیں کیا گیا اور آپ کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی ہے اس لئے آپ سے استدعا ہے کہ آج منگل کو مقرر کئے گئے مقدمے کی سماعت ڈی لسٹ کرتے ہوئے اس کو یکم اپریل کے بعد کسی تاریخ پر مقرر فرمائے اور اس مقدمے کو اس بینچ میں لگایا جائے جس کا حصہ جسٹس جواد ایس خواجہ نہ ہوں ۔