پشاور سے تین سال قبل ا غوائہونے والا تاجر تاحال بازیاب نہ ہوسکا، اہل حانہ کشمکش میں مبتلا

جمعرات 26 مارچ 2015 17:47

چترال/پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔26مارچ۔2015ء) آہوں اور سسکیوں میں اپنے غمزدہ دل کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ عیسائی خواتین اپنے گھر کے سربراہ پیٹر ساجن کی بازیابی کی دُہائیں دیتی ہیں۔ اپنے بال بچوں کیلئے رزق حلال کمانے والا پیٹر ساجن ولد ساجن گرین ٹاؤن پشاور کا رہائشی ہے جس کا بھانہ ماڑی مارکیٹ میں سینٹری کا کاروبار ہے۔ چار جون 2012کو اس کو دکان سے اس بہانے لے گیا کہ گھر میں سینٹری کا کام ہونا ہے اور وہ اس کا اندازہ لگاکر سامان فراہم کرے۔

اور اس کے بعد وہ پھر کبھی گھر نہیں لوٹا۔اس کے بیٹے جہانگیر پیٹر کا کہنا ہے کہ اغواء کاروں نے رات دیر تک اسی ہی کے موبائیل فون سے ہمیں فون کرکے چالیس لاکھ روپے کا مطالبہ کیا ہم نے بڑی منت سماجت کی کہ ہم تو عیسائی لوگ ہیں بڑی مشکل سے سینیٹری کا یہ دکان کھولا ہے جس سے گھر کا خرچہ پورا ہوتاہے مگر وہ لوگ ایک بھی نہ مانے۔

(جاری ہے)

عادل پیٹر جو اس کے چھوٹے بیٹے ہے کا کہنا ہے کہ اغواء کاروں نے پھر پچیس لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا ہم اس کیلئے تیار بھی ہوئے رشتہ داروں سے قرض لیکر ان کے دینے لگے۔

رنگ روڈ پر انہوں نے ہمیں بلایا مگر وہ چودہ اگست کا دن تھا وہ لوگ واپس چلے گئے اور ہمیں اطلاع دی کہ پولیس گشت کر رہی ہیں ہم آپ سے نہیں مل سکتے۔ان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے اسے تاوان کیلئے اغواء کیا تھا وہ ڈیڑھ سال تک ہم سے رابطہ کرتے اور محتلف جگہہ بتاتے مگر ہمیں کامیابی نہیں ہوئی اور ڈیڑھ سال سے وہ لوگ رابطہ بھی نہیں کرتے پتہ نہیں کہ ہمارا پاپا زندہ بھی ہے کہ نہیں۔

ان کے اہل حانہ نے بتایا کہ اس قسم کے کیسوں میں اکثر پولیس کو ملوث کرنا نقصان کا باعث بنتی ہے کیونکہ پولیس اغواء شدہ فرد کو بازیاب تو کرتا نہیں البتہ ان کی چاندنی ہوجاتی ہے بار بار آکر محتلف بہانوں نے تنگ کرتے ہیں اور اکثر متاثرہ حاندان سے پیسے بھی لیتے ہیں اسلئے ہم نے ایک ماہ تک رپورٹ نہیں کرائی مگر پھر بھی ہم نے قانونی تقاضے پورا کرتے ہوئے بھانہ ماڑی تھانہ میں اس کے اغواء کا باقاعدہ رپورٹ درج کروایا مگر پولیس نے ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا۔

اس کے اہل حانہ کا کہنا ہے کہ دو مرتبہ ہم بڈھ بیر اور رنگ روڈ پر رقم بھی لے گئے جو اغواء کار پیٹر سجن کے موبائل فون سے ہمیں جگہہ کی نشاندہی کرتا مگر ہمیں کامیابی نہیں ہوئی۔اس کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں اور ایک بیوی اب بھی اس کی راہ تکتی ہیں۔جیمز اس کے چھوٹے بھائی ہیں جو نہایت پریشان ہے اور ایک عجیب زہنی کوفت سے گزر رہا ہے ان کا کہنا ہے کہ اغواء کاروں نے اس کا موٹر سائکل بھی لے گیا جس پر وہ گئے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ اغواء کاروں نے ان کو تہکال، نوشہرہ، جہلم، درگئی اور حیات آباد وغیرہ محتلف مقامات سے فون کرتے رہے۔ صنوبر عرفان ا س کی بہو ہے ا ن کا کہنا ہے کہ ہم تین سالوں سے نہ تو کرسمس مناتے ہیں نہ ایسٹر کیونکہ میرا سسر گھر میں نہ ہونے کی وجہ سے گھر عجیب سا منظر پیش کرتا ہے۔شہلا پیٹر اس کی چھوٹی بیٹی ہے وہ روتی ہوئی سسکیوں میں اپنی دل کی آواز ان ظالموں تک پہنچانے کی کوشش کرتی ہے جن لوگوں نے ان کا پا پا اغواء کیا ہے اور فریاد کرتی ہے کہ خدا را اسے چھوڑ دیجئے۔

نسرین پیٹر اس کی بیوی ہے جس پر سکتہ طاری ہے اور اپنی بیٹی کو دلاسہ دیتی ہے خود کتنی دکھی ہوگی اس کا اندازہ اس کی باتوں سے لگا کہ جب اسے پتہ چلا کہ اس کا شوہر اغواء ہوا ہے تو وہ بے ہوش ہوئی اور ہسپتال پہنچی اور ایک ماہ بعد اس پر فالج کا حملہ بھی ہوا۔ہمارے نمائندے نے اس متاثرہ اور غمزدہ خاندان کے گھر کا دورہ کیا جن سے ویش جیمز (سالی) جاوید مسیح(بھائی) اہل علاقہ کے مسلمان لوگوں میں سے منیر سراج ، محمد جان اور گل افضل نے کہا کہ مجھے تو نہایت شرمندگی محسوس ہوتی ہے کیونکہ اسلام تو امن اور سلامتی کا دین ہے مگر اغواء کار مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک عیسائی شحص کو پیسوں کے لالچ پر اغواء کرتے ہیں۔

پیٹر ساجن کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ہم نے اس وقت ڈی ایس پی طارق حبیب سے بار بار رابطہ کرکے درخواست کی کہ ان کے باپ کو بازیاب کرایا جائے مگر ہماری ایک بھی نہیں سنی گئی۔اور اب تو ہم ہر طرف سے مایوس ہوگئے۔ پیٹر کے چھوٹی بیٹی نے باپ کے غم میں اپنی پڑھائی بھی چھوڑ دی۔اور ہر وقت اپنے پا پا کی تصویر کے ساتھ باتیں کرتی رہتی ہے جب کہ اس کے چھوٹا پوتا اپنے دادا کا تصویر چھومتا رہتا ہے اور اپنی معصوم انداز میں شائد یہ مطالبہ کرتا ہے کہ گھر کب لوٹ آؤں گے؟۔

امیر زیب جو پیٹر ساجن کا کاروباری ساتھی ہے کا کہنا ہے کہ اس کا اس مارکیٹ میں پچیس سالوں سے دکان ہے پیٹر ساجن کو اچھی طرح سے جانتا ہے جو سائکل پر اپنا کاروبار کرتے کرتے دکان کا مالک ہوا اور نہایت شریف النفس انسان تھے کبھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی۔ اس کے اغواء کے بعد ہم نے ہڑتال بھی کی ، بازار بند کیا، دوسرے بازاروں کے صدور نے بھی آکر ہمارے ساتھ یکجہتی کا مظاہر ہ کیا مگر پولیس کو جو کردار ادا کرنا چاہئے تھا وہ انہوں نے نہیں کیا ورنہ پیٹر کب کا بازیاب ہوتا وہ اسی پشاور کے آس پاس کہیں چھپایا گیا ہے اسے کسی بیرون ملک نہیں لے گیا ہے ۔

انہوں نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا کہ پیٹر ساجن کو جلد سے جلد بازیاب کرایا جائے۔پیٹر ساجن کے گھر مہمانوں اور تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے اور دور دور سے ان کے عزیر رشتہ دار آکر ان کو دلاسہ دیتے ہیں اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے ساتھ ساتھ ان کو تسلی بھی دیتے ہیں کہ وہ بہت جلد اپنے گھر لوٹے گا۔ ان کی بیٹی اور بیوی نے چیف جسٹس آف پاکستان، وزیر اعظم نواز شریف ، وزیر اعلےٰ پرویز خٹک اور انسپکٹر جنرل آف پولیس ناصر خان درانی سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ پیٹر ساجن کو جلد اس جلد بازیاب کرانے کیلئے ضروری اقدامات کرے کیونکہ پونے تین سالوں سے ان کے اہل حانہ نہایت ذہنی کوفت اور غم سے گزر رہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :