ہارون آباد ‘ ہاکٹرہ نہر بارڈر لائن پر متعدد چکوک کا سات ہزار سے زائد زرعی رقبہ میں سیم وتھور کا پانی کھڑا ہونے سے تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا

جمعرات 26 مارچ 2015 13:05

ہارون آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔26مارچ۔2015ء ) ہاکٹرہ نہر بارڈر لائن پر متعدد چکوک کا سات ہزار سے زائد زرعی رقبہ میں سیم وتھور کا پانی کھڑا ہونے سے تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا سرسبز فصلوں کی جگہ تا حد نظر پانی ہی پانی ۔ 30 ہزارکاشتکاروں کے نفوس دو وقت کی روٹی سے محروم ہو گئے متاثرہ زمینداروں کے پاؤں میں جوتی رہی نہ تن پر کپڑا ،نوجوان تعلیم کے حصول کی بجائے ملوں میں زندگی اور سانس کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے کام کرنے لگے سیاسی قیادت ،و انتظامیہ کی خاموشی نے کاشتکاروں کو زندہ درگور کردیا ۔

میڈیا ٹیم کی سروئے رپورٹ میں متاثرہ کاشتکاروں محمد افضل ، محمد الیاس سابقہ چیئرمین ، محمد شریف ، محمد ارشد سابقہ ناظم ،محمد افضل ، عباس علی نمبردار ،امجد علی ،محمد وسیم طالب علموں و دیگر کا واویلا ۔

(جاری ہے)

پہلی بار سیم اس علاقہ میں 1995 میں آئی جس سے زرعی رقبہ بہت کم متاثر ہوا تھا مگر موجودہ سیم کی تباہی نے کاشتکاروں کو فاقہ کش کردیا ۔اس علاقہ میں زراعت کے علاوہ کوئی ذریعہ معاش نہ ہے اور سونا اگلتی زمینوں میں متعدد فٹ تک پانی کھڑا ہے ۔

زمینداروں کی نقد ی مویشی بھی ختم ہو چکے ہیں کیونکہ ان کے لیے چارہ نہ ہے ۔ہر طرف پانی ہے جس میں مچھر کی بہتات نے ملیریا سمیت متعدد امراض سے پریشانی پیدا کردی ۔اس علاقہ میں ڈسپنسری نہ ہونے علاج کی سہولت ناگفتہ بہ ہو چکی ہے ۔اعلیٰ قیادت کو دی گئی درجنوں درخواستیں بھی قابل عمل نہ ہو سکیں ۔حکومت نے چاول کاشت کرنے والے کاشتکاروں کو فی ایکڑ سب سڈی دینے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ بھی ایفا نہ ہو سکا ۔

1995 میں اس علاقہ کی سیم کے حل کے لیے سیم نالے بنائے گئے تھے جو کہ ایک دن کے لیے بھی قابل عمل نہ ہو سکے ان کا مقصد زمینوں کو برباد کرنے کے کچھ نہ ہوا ۔ان پانی کھڑی زمینوں کا آبیانہ ، زرعی ٹیکس بھی ادا کیا جا رہا حالانکہ کسی کھیت سے کوئی پیدا وار نہیں ہوتی ۔ان متاثرہ خاندانوں کو زندہ رکھنے کے لیے ان کو امدادی پیکج دیا جائے ۔اور اعلیٰ سطحی ٹیم بھجوا کر مدد کریں ۔

متعلقہ عنوان :