بلوچستان میں تعلیمی مسائل مہم و آگاہی کے سلسلے میں کو ئٹہ کے مختلف اسکولوں کا دورہ کر کے تعلیمی صورتحال کا جائزہ لیاگیا

ہفتہ 21 مارچ 2015 21:12

کوئٹہ ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔21مارچ۔2015ء ) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی آرگنائزر جاوید بلوچ کی قیادت میں بلوچستان میں جاری بی ایس او کی جانب سے تعلیمی مسائل مہم و آگاہی کے سلسلے میں کو ئٹہ کے مختلف اسکولوں کا دورہ کر کے تعلیمی صورتحال کا جائزہ لیا۔جس میں یو سی چیئرمین حاجی فاروق شاہوانی بی این پی کوئٹہ کے جوائنٹ سیکریٹری ملک محی الدین لہڑی لیبر سیکرٹری ڈاکٹر علی احمد قمبرانی سمیت دیگر نے نواب اکبر بگٹی ماڈل ہائی اسکول سریاب مل کوئٹہ ہائی اسکول کیچی بیگ گرلز ہائی اسکول کیچی بیگ سمیت دیگر اسکولوں کا دورہ کیا۔

جس میں مسائل کی گھمبیر صورتحال بیان سے بھی زیادہ موجود تھے۔اسکول انتظامیہ موجود لیکن تعلیمی عدم سہولیات کے باعث تعلیمی عمل اور طلباء و استاد کے درمیان مسائل رکاوٹ بن کر بول رہے تھے۔

(جاری ہے)

جس پر بی ایس او کے چیئرمین نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہ بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ کا تاریخی قدیم آبادی ہے۔لیکن اسکول میں معصوم بچے فرش پر سردی میں بغیرگیس فرنیچر اور ٹاٹ کلاس میں پڑھ رہے تھے۔

جو تعلیمی ایمرجنسی کی زینت بن کر بلوچ باعمل اہل دانش کودعوت توجہ دلاتی ہے۔سائینس کا سامان دستیاب نہیں۔ مل اسکول نام کی حد تک ماڈل اسکول ہے لیکن سہولیات کی عدم دستیابی تعلیمی عمل پراثر انداز ہو رہی ہیں۔جہان اعلیٰ تعلیمی حکام کی دعوؤں کی نفی خود بول رہی تھی کہ ایک استاد محترم گزشتہ آٹھ سالوں سے غیر حاضری کے باوجود تنخواہ لے رہی ہے۔

جب کہ حاضر طلبی پر مختلف کالز کے زریعے موصوف کو تنگ نہ کرنے کی فرمائش کی جاتی ہے۔جو کہ تعلیمی عمل کی تسلسل میں رکاوٹ ہے۔ وزیر اعلیٰ اس کی باز پرسی یا ٹرانسفر کا اختیار رکھ سکتی ہے ۔زیر تعمیر بلڈنگز می کام رکا ہوا ہے۔اس جدید صدی کو کے مصروف شاہراہ پر موجود ہائی اسکول کیچی بیگ سریاب اور نواب اکبر بگٹی اسکول بنیادی تعلیمی مسائل ٹیچرز کی کمی لیبارٹری پریکٹیکل سامان اسپورٹس و گیر نصابی سامان کی عدم دستیابی سمیت ایسے مسائل موجود ہیں جن کی بابت بجٹ میں بلندو بانگ دعوے کیا جاتا ہے۔

ان اسکولوں میں بتدرج انیس سو اور دو ہزار طلباء زیر تعلیم ہیں لیکن اساتذہ و کتب کی کمی یا عدم فراہمی پر خاموشی اختیار کی جا چکی ہے۔ جبکہ مادری تعلیم کی ٹیچر کسی بھی تعلمی ادارے میں موجود نہیں ہے۔جس سے اکیسویں صدی کی جدت بھری صدی میں جدت ٹیکنالوجی کا مقابلہ کرنے کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ کمپیوٹر لیب و کمپیوٹر اور اس کے کے لیئے ٹرینی تاحال نہیں ہے۔

جبکہ اسکالر شپ و دیگر تعلمی اصلاحات کی نام پر گمراہ کن اعداد شمار دکھا کر تعلمی تبدیلی لانے کلی بات کی جارہی ہے۔ گرلز اسکول کیچی بیگ کی حالت اس بھی بد تر تھی جہان بلڈنگ کی خستہ حالی کسی سانحہ کی دستک دے رہی تھی۔ جبکہ سرکاری اعداد شمار میں ترقیاتی کام جاری لیکن عملاً معاملہ صاف ہے۔گنجائش سے زیادہ طالبات و ٹیچرز کی کمی کے ساتھ کنویونس کی سہولت بھی دور حاضر کی ضرورت ہے۔

لیکن بلوچستان کے نوجوانوں کو تعلیمی وصحت مندانہ رجحانات اپنی جگہ نواب بگٹی اسکول مل کی غیر حاضر ٹیچر کا تبادلہ کرکے اس کی جگہ پر کیا جائے۔اور مزید ستائیس اساتذہ و دیگر حملہ کی ضرورت موجود ہے۔جبکہ بچیوں کو مختلف بنیادی مسائل نے حقیقی بنیادی تعلیمی تصورات سے محروم کردیا ہے۔اکثر پرائمری اسکولوں میں اساتذہ امیں اس سے بھی بڑھ کر مسائل موجود ہے۔بی ایس او رتعلیمی حکام بالا کو متنبہ کرتی ہے کہ فی الفور تعلیمی مسائل کی سدباب کی جائے۔بصورت دیگر ان کے خلاف لائحہ عمل کے ساتھ بھرپو ر احتجاج کیا جائیگا۔

متعلقہ عنوان :