اراکین پارلیمنٹ کے وزارت ہاؤسنگ اور پانی و بجلی کے منصوبوں کی تفصیلات وزارت خزانہ کو نہیں ملیں،

25سال قبل انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بنک کے 9کروڑ 71لاکھ روپے کے قرضوں کی وصولی نہ ہو سکی، ایف بی آر زرعی ترقیاتی بنک کا20سالوں سے 29کروڑ 71لاکھ روپے کا نادہندہ نکلا پی اے سی کی ذیلی کمیٹی کو وزارت خزانہ اور آڈٹ حکام کی بریفنگ

جمعرات 19 مارچ 2015 16:55

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔19مارچ۔2015ء) پبلک اکاونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کو وزارت خزانہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کے وزارت ہاؤسنگ اور پانی و بجلی کے منصوبوں کی تفصیلات وزارت خزانہ کو نہیں ملی ہیں،آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ 25سال قبل انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بنک کے 9کروڑ 71لاکھ روپے کے قرضوں کی وصولی نہ ہو سکی، اربوں روپے کے ٹیکس لینے والا ایف بی آز رعی ترقیاتی بنک کا20سالوں سے 29کروڑ 71لاکھ روپے کا نادہندہ نکلا۔

جمعرات کو قومی اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنوینئیر شاہدہ اختر علی کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا اجلاس میں وزارت خزانہ کے آڈٹ اعتراضات برائے 1998-9کا جائزہ لیا گیا ۔ آڈٹ حکام نے کمیٹی میں بتایا کہ انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بنک کی جانب سے 25سال قبل دئے گئے 9کروڑ 71لاکھ روپے کے قرضے دئے جو تاحال واپس نہیں کئے گئے وزارت خزانہ کے حکام نے بتایا کہ یہ کل 453کیسسز تھے جن میں اب صرف 63کیسسزرہ گئے ہیں ہم ریکوری کر رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

جس پر آڈٹ حکم نے کہاکہ وزارت خزانہ نے اگر قرضے واپس لئے ہیں تو ہمیں رپورٹ دیکھائیں‘ تاکہ ہم مطمئن ہوجائیں جس پر کمیٹی نے وزارت خزانہ کو ہدایت کی کہ وہ ایک ماہ میں ریکوری کی رپورٹ آڈٹ حکام کو پیش کریں اور باقی ماندہ ریکوری جلد از جلد کی جائے ۔آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے 1997ء میں ایک عمارت کی تعیر اور ملازمیں کے لئے 256فلیٹس بنانے کاٹھیکہ دیا جو 1988میں شروع ہونا تھا اور 1990میں مکمل ہونا تھا مگر یہ کام سات سال کی تاخیر سے 1997ء میں مکمل ہوا جس سے ادارے کو تقریبا0 2کروڑ روپے کا نقصان ہوا ۔

مگر وزارت خزانہ کی جانب سے اس معاملے پر ذمہ داروں کا تعین بھی نہیں کیا گیا ۔کمیٹی نے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا۔آڈٹ حکام نے بتایا کہ وزارت خزانہ نے نہ تو اس معاملے میں ذمہ داروں کا تعین کیاہے اور نہ ہی ہمیں تسلی بخش جواب دیا گیاہے ۔وزارت خزانہ نے مئوقف اختیار کیا کہ اس معاملے میں ذمہ داروں کا تعین ممکن نہیں مختلف اداروں کے زریعے ان عمارتوں کا جائزہ بھی لیاہے ۔

آڈٹ حکام نے کہاکہ اسٹیٹ بنک نے جو کنٹریکٹ کیاتھا وہ ناقص تھا ۔اس لئے تحقیقات کے بعد کنٹریکٹ بنانے والوں پرذمہ داری عائد کی جا سکتی ہے ۔کمیٹی معاملے میں غفلت کا مظاہر ہ کرنے والوں پر ذمہ داری عائد کرنے اور اس معاملے کو دوبارہ اسٹیٹ بنک کے بورڈز آف ڈائریکٹر میں لے جا کر معاملہ حل کرنے کی ہدایت کر دی ۔آڈٹ حکام نے بتای کہ زرعی ترقیاتی بنک نے 29کروڑ 71لاکھ روپے اٹارنی جنرل کے فیصلے کی مد میں ٹیکس کی رقم ایف بی آر سے لینی ہے مگر ایف بی آر یہ رقم زرعی ترقیاتی بنک کو ادا نہیں کر رہا ۔

سیکرٹری نے کہاکہ وہ ذاتی طور پر چئیرمیں ایف بی آر سے بات کریں گے انہوں نے کہاکہ ایف بی آر دوسروں سے پیسے لیتاہے یہ پیسے بھی بیس سال سے ادا نہیں کر رہا ۔کمیٹی نے ایک ماہ میں معاملہ نمٹانے کی ہدایت کر دی ۔آڈٹ حکام نے بتایا کہ زرعی ترقیاتی بنک نے 25نادہندگان سے 32لاکھس ے زائد کی رقم 18سالوں سے وصول نہین کی اور نہ سود کی مد میں ادائیگی ہوئی جس کی وجہ سے یہ رقم بہت زیادہ بڑھ گئی ہے ،حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ باقی ماندہ رقم وصول کرلی گئی ہے صرف 9لاکھ پچاس ہزار رہ گئے ہیں جنھیں ایک ماہ میں وصول کر لیا جائے گا۔

کمیٹی میں آڈٹ حکام نے انکشاف کیاکہ فیڈرل بنک فار کوآپریٹو میں ایک 95لاکھ کے گھپلے کے کیس میں نیب اور ایف آئی اے کی لڑائی کے باعث ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں سکی ۔نیب حکام نے بتای کہ یہ کیس نیب کو دو سالوں کے لئے ملا اور پھر اسی نوٹیفیکیشن کو ڈی نوٹیفائی کرکے یہ کیس ایف آئی اے کو دے دیا اور اس کے دو دن بعد ملزم بری ہوگیااور ایف آئی اے نے اس کی پیروی نہیں کی ۔

ایف آئی اے نے بتایاکہ یہ کیس نیب کا پراسیکیوٹر لڑ رہا تھا تو ہم کیسے اس کیس کی پیروی کرتے جس پر نیب حکام نے کہا کہ جب یہ کیس ایف آئی اے کو دیاگیا تو پھر ہم کیسے پیروی کریں وزارت قانون نے کہاکہ ایف آئی اے کو اس ملزم کو گرفتار کرنا چاہئے کمیٹی نے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کر لی ۔آڈٹ حکام نے بتایا کہ ایس ایم ای نے 27لاکھ 50ہزار کا قر ضہ جو 1993میں 12لوگوں کو دیا اور اسکی ایک قسط بھی ریکور نہیں ہو پائی کمیٹی نے ایک ماہ میں ریکوری کر کے رپورٹ دینے کی ہدایت کر دی ۔

سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ اراکین پارلیمنٹ کے وہ منصوبے جو جاری ہیں مگر مکم ل نہیں ہوسکے انہیں مکمل کرنے کا فیصلہ ہو چکاہے انہوں نے کہاکہ وزار ت پیٹرولیم کے متعلق تمام منصوبوں کی فہرست حتمی منظوری کے لئے وزیراعظم کو بھجوا دی گئی ہے ۔وزارت ہاوسنگ اور پانی و بجلی کے منصوبوں کی تفصیلات تاحال وزارت خزانہ کونہیں ملی ۔