بنگلہ دیش ملائشیاء‘مصر و ترکی کی طرز پر مذہبی سکالرزکوخاندانی منصوبہ بندی پروگرام کا ہراول دستہ بناناہوگا،پاکستان دنیا بھر میں آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک بن گیا ہے ،غیرتربیت یافتہ دائیوں کے ہاتھوں خواتین میں ایک تہائی اموات زچگی کے دوران ہوتیہیں، پاکستان میں چالیس فیصد سے زائد خواتین اور بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں،ہمیں آبادی کو اپنے وسائل کے مطابق رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا ،سمینار سے مقررین کا خطاب

بدھ 18 مارچ 2015 14:56

فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔18مارچ۔2015ء) پاکستان میں بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کے سیلاب کو روکنے کیلئے بچوں کے درمیان مناسب وقفہ اور ضبط تولید کے طریقوں کو رواج دینے کیلئے بنگلہ دیش ملائشیاء‘مصر و ترکی کی طرز پر مذہبی سکالرزکوخاندانی منصوبہ بندی پروگرام کا ہراول دستہ بناناہوگا،پاکستان دنیا بھر میں آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک بن گیا ہے ،غیرتربیت یافتہ دائیوں کے ہاتھوں خواتین میں ایک تہائی اموات زچگی کے دوران وقوع پذیرہورہی ہیں، پاکستان میں چالیس فیصد سے زائد خواتین اور بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں لہٰذا ہمیں آبادی کو اپنے وسائل کے مطابق رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا ۔

ان خیالا ت کا اظہار زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ رورل سوشیالوجی اور ڈسٹرکٹ پاپولیشن ویلفیئرآفس کے اشتراک سے نیو سینٹ ہال میں پاپولیشن ویک کے سلسلہ میں منعقدہ خصوصی سیمینار سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کیا، سیمینار کے مہمان خصوصی یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہوتے ہوئے ہمیں شادی شدہ جوڑوں میں بچوں کے مابین مناسب وقفہ اور ماں کی صحت برقرار رکھنے کا شعور بڑھاناہوگا تاکہ ایک پڑھی لکھی اور صحت مند ماں کے ذریعے مثالی معاشرہ تشکیل پا سکے۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے پیغام کوآگے پہنچانے کیلئے ایک ہفتہ نہیں بلکہ پورا سال اسی شدومد سے کام کرناہوگا۔ جامعات میں طالبات کی تعدادمیں اضافہ ہونے سے ان میں شادی کی اوسط عمر بڑھ رہی ہے لہٰذا مستقبل قریب میں بنیادی تعلیم کے بعد طالبات کیلئے اعلیٰ تعلیم کے زیادہ مواقع بھی فیملی سائز کو ایک حد تک رکھنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہرچندگھروں میں بیشتر فیصلے خواتین کے ہاتھوں میں ہیں تاہم فیملی سائز کے حوالے سے بھی انہیں فیصلے کا اختیار دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ آج انسان نے سائنس میں ترقی و معیار زندگی میں بہتری کی بدولت بیشتربیماریوں‘ زلزلوں ‘ سیلاب ‘ اور دیگرقدرتی آفات پر کسی حد تک قابو پالیا ہے جس کی وجہ سے آبادی تواتر سے بڑھ رہی ہے جسے روکنے کیلئے نوجوانوں میں چھوٹے خاندان کا رجحان فروغ دیا جانا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت میں فیصلہ سازی کے تمام اداروں اور باڈیز میں 33فیصد خواتین لازم قرار دی گئی ہیں جس سے انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ دار بننے کے مواقع میسر آ رہے ہیں۔ رکن پنجاب اسمبلی ڈاکٹر نجمہ افضل نے کہا کہ حکومت نے حال ہی میں کم عمربچیوں کی شادی کو جرم قرار دیتے ہوئے قصورواروں کیلئے چھ ماہ قید اور 50ہزار روپے جرمانہ مقرر کیا ہے تاہم اس میں مزید سختی کیلئے قانون سازی کی جانی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پنجاب نے دیہی عوام کی سہولت کیلئے تمام بنیادی مراکز صحت کوچوبیس گھنٹے کھلا رکھنے کا پروگرام شروع کر دیا ہے جس کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ڈین کلیہ سوشل سائنسز ڈاکٹر اقبال ظفر نے کہا کہ خاندانی منصوبہ بندی قطعاً غیراسلامی نہیں یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش‘ ایران اور بیشتر مسلم ممالک میں مذہبی سکالرز کی مدد سے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔

انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ جس رفتار سے خواتین میں شرح تعلیم بڑھ رہی ہے اس سے جلد مثبت تبدیلی آئیگی۔ ڈسٹرکٹ آفیسرپاپولیشن ویلفیئرڈاکٹر فرخندہ الماس نے کہا کہ غیرتربیت یافتہ دائیوں کے ہاتھوں خواتین میں ایک تہائی اموات زچگی کے دوران وقوع پذیرہورہی ہیں لہٰذا ضرورت مند خواتین کی تربیت یافتہ ہیلتھ ورکرزتک رسائی کو عام کرکے ان میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ خاندان کی سطح پر بچوں کے درمیان وقفہ‘ مانع حمل طریقوں کو رواج دینے کے ساتھ ساتھ خواتین کو فیملی سائز کا فیصلہ کرنے کیلئے اپنے مردوں کو بھی تیار کرنا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ یو این پی ایف نے سال 2015ء کو نوجوانوں کا سال قرار دیتے ہوئے ان پر سرمایہ کاری پر زور دیا ہے تاکہ ان کی عملی شرکت سے مشکل اہداف کا حصول آسان بنایا جائے۔سیمینار سے چیئرمین شعبہ سوشیالوجی پروفیسرڈاکٹر اشفا ق احمد مان ‘ ڈاکٹر ادیبہ انور اور تحریم فاطمہ نے بھی خطاب کیا۔