ملک بھر میں اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے خصوصی اقدامات کئے جائیں‘ ریاست سے انصاف نہ ملنے پر لوگ قانون ہاتھ میں لیتے ہیں‘ قومی اسمبلی اجلاس میں ارکان کی سانحہ یوحنا آباد کی پرزور مذمت

جماعت اسلامی کا نائن زیرو سے132ٹارگٹ کلرز کی گرفتاری کو ایوان میں زیر بحث لانے کا مطالبہ

منگل 17 مارچ 2015 16:39

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17مارچ۔2015ء) قومی اسمبلی کے ارکان نے سانحہ یوحنا آباد کی پرزور مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک بھر میں اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے خصوصی اقدامات دیئے جائیں، ریاست کی طرف سے انصاف نہ ملنے پر لوگ قانون ہاتھ میں لیتے ہیں، جماعت اسلامی نے کراچی میں ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹرز اور نائن زیرو سے132ٹارگٹ کلرز کی گرفتاری کو بہت بڑا واقعہ قرار دیتے ہوئے اسے ایوان میں زیر بحث لانے کا مطالبہ کیا جبکہ پختونخواہ میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ آئین اور قانون پر مکمل عملدرآمد کئے بغیر ملک چلانا اور بچانا مشکل ہو گا، پارلیمنٹ اور جمہوریت کو مضبوط بنا کر ہی فیڈریشن کو قائم رکھا جا سکتا ہے۔

منگل کو پی پی پی کے سید نوید قمر، نفیسہ شاہ، جماعت اسلامی، کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ ،پی کے میپ کے محمود خان اچکزئی، عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد، جمشید دستی و دیگر نے سانحہ یوحنا آباد پر اظہار خیال کرتے ہوئے چرچ دھماکوں کی شدیدمذمت کی اور اقلیتی برادری کے ہلاک ہونے والے افراد اور زندہ جلائے جانے والے شہریوں کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔

(جاری ہے)

پی پی پی کے سید نوید قمر نے کہا کہ سانحہ لاہور قابل مذمت ہے، جلاؤ گھیراؤ کرنے والے ریاست کی جانب سے ان کے تحفظ میں ناکامی کی وجہ سے رد عمل ظاہر کر رہی ہے۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ وزیر داخلہ بیان دینے کے بعد ایوان سے چلے جاتے ہیں جو مناسب نہیں ہے، اس ملک میں حکومت کی رٹ ختم ہو گئی ہے، لوگ قانون ہاتھ میں لے رہے ہیں، لاہور کے ساتھ کراچی میں بھی بڑا واقعہ ہے، 132ٹارگٹ کلرز پکڑے گئے ہیں، یہ واقعہ بھی ایوان میں زیر بحث لایا جائے ۔

شیخ رشید نے کہا کہ خود کش حملہ آور کا مقابلہ کرنا مشکل ہے، افسوسناک بات ہے کہ لاہور میں دو انسانوں کو زندہ جلائے جانے کا واقعہ آئی جی اور ایس پی کی موجود میں ہوا، شام میں 500پاکستانی لڑ رہے ہیں، ایک اطلاع کے مطابق 300خود کش حملہ آور موجود ہیں، اکثر خود کش حملے جمعرات یا جمعہ کو کرائے جاتے ہیں، کراچی میں سب سے کم خود کش حملے کراچی میں ہوئے ہیں، پاکستان خود کو دنیا میں لگی آگ سے الگ رکھے ہم کرائے کے لوگ نہیں ہیں، صدام حسین اور کرنل قذافی پاکستان میں فنڈنگ میں ملوث رہے ہیں، اسلام آباد کی سیکیورٹی رینجرز کے حوالے کی جائے ، پارلیمنٹ کی ڈسپنسری میں اربوں روپے کے گھپلے ہو رہے ہیں، ایل این جی کی قیمت سے ایوان کو آگاہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ایوان میں 80فیصد سوالات ارکان کے کارروائی کا حصہ بنائے جاتے ہیں جبکہ اپوزیشن کا بزنس ایجنڈے پر نہیں لایا جاتا، ڈپٹی سپیکر نے تردید کرتے ہوئے شیخ رشید کو ثبوت سامنے لانے کیلئے کہا۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ملک حالت جنگ میں ہے، لیکن ارکان پارلیمنٹ کی سنجیدگی نظر نہیں آ رہی، نواز شریف گھر سے وزیر اعظم نہیں بنے، اس ایوان نے انہیں وزیر اعظم بنایا ہے، اس پارلیمنٹ کے باہر چار ماہ تک 40ہزار سیکیورٹی اہلکار تماشائی بنے رہے، 18سے 20ویں گریڈ کے افسروں کو مارا گیا، ایس ایس پی کو پیٹا گیا، کسی نے نوٹس نہیں لیا، اگر ملک کو قانون کے مطابق اور آئینی تقاضوں کے مطابق چلایا جائے تو ملک کو کوئی خطرہ نہیں، ملک خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے، قانون پر عمل کے بغیر ملک نہیں چلے گا، اس ایوان کو مضبوط بنایا جائے ، جمہوریت کیلئے غیر مشروط تعاون کریں گے، ہمارے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے۔

نفیسہ شاہ نے کہا کہ وزیر داخلہ کے سانحہ لاہور بارے بیان پر تحفظات ہیں۔ وزیر داخلہ کو اپنے بیان میں صرف حقائق تک محدود رکھنا چاہیے تھا۔ جمشید دستی نے کہا کہ دہشت گردی کا کوئی مستقل علاج نظر نہیں آیا، دہشت گردی کے بعد عوام اپنا غصہ نکالنے کیلئے جلاؤ گھیراؤ کرتے ہیں۔