وزیراعلیٰ نہیں جے آئی ٹی ان کے سامنے پیش ہوئی ،صبح 9 بجے واقعہ کا علم ہونے کا بیان اقبال جرم ہے‘ پاکستان عوامی تحریک،

غیر جانبدار جے آئی ٹی کے تمام ممبر وزیراعلیٰ کو گاڑی تک چھوڑنے آئے ،ہم قاتلوں کی مرضی کی جے آئی ٹی کو قبول کیوں کریں؟، وزیراعلیٰ نے پولیس کے پیچھے ہٹنے کے حکم پر عمل نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی؟‘خرم نواز گنڈا پور کی میڈیا سے گفتگو

ہفتہ 14 مارچ 2015 22:55

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔14مارچ۔2015ء ) پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ نہیں جے آئی ٹی ان کے سامنے پیش ہوئی، وزیراعلیٰ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئے غیر جانبدار جے آئی ٹی کے سربراہ نے انہیں سلیوٹ کیا، وزیراعلیٰ نے چائے پی، حال پوچھا اور چلے گئے ،وزیراعلیٰ کا یہ کہنا کہ انہیں 17 جون کی صبح 9 بجے واقعہ کا علم ہوا اور انہوں نے ڈاکٹر توقیر شاہ کے ذریعے پولیس کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا،ان کا یہ بیان اقبال جرم ہے کیا وزیراعلیٰ پنجاب نے اس بات کی انکوائری کروائی کہ پولیس کے پیچھے ہٹنے والے ان کے حکم پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوا؟ اور انہوں نے اس حکم عدولی پر ذمہ داروں کو سزا کیوں نہیں دی؟ کیونکہ وزیراعلیٰ پنجاب اپنے سامنے کھانسنے والے کو بھی عبرت کا نشان بنانے کی شہرت رکھتے ہیں،یہ حقیقت غیر جانبدار تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئے گی کے وزیراعلیٰ نے پولیس کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا یا فائرنگ کرنے کا ؟ ۔

(جاری ہے)

خرم نواز گنڈاپور نے وزیراعلیٰ کی طرف سے جے آئی ٹی کو بیان ریکارڈ کرانے کی خبر سامنے آنے کے بعد اخبار نویسوں اور الیکٹرانک میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ جے آئی ٹی کی کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں ہے کیونکہ یہ جے آئی ٹی بناتے وقت شہداء کے لواحقین اور زخمیوں سے مشاورت نہیں کی گئی ۔انہوں نے کہا کہ ہم قاتلوں کی مرضی کی جے آئی ٹی کو قبول کیوں کریں؟ اور ایسی جے آئی ٹی سے انصاف کیسے مل سکتا ہے جو وزیراعلیٰ پنجاب کو چائے پیش کرے اور انہیں گاڑی تک چھوڑنے جائے ؟ انہوں نے کہا کہ کیا پنجاب کے ہر اس قتل کے ملزم کو تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہوتے ہوئے یہی پروٹوکول ملتا ہے جو 14 شہادتوں میں ملوث ملزم وزیراعلیٰ پنجاب کو ملا ۔

خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ جے آئی ٹی ڈرامہ کامیاب نہیں ہو گا بلآخر پھانسی کا پھندہ قاتلوں کے گلے تک ضرور پہنچے گا۔انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی نیت صاف ہوتی تو وہ جیلوں میں بند اور ہسپتالوں میں زیر علاج زخمیوں سے رابطہ کر کے ان کا بیان ریکارڈ کر سکتی تھی ، ان کا بیان ریکارڈ کرنے سے جے آئی ٹی کو کس نے روکا؟ ۔انہوں نے مزید کہا کہ دھرنے کے دوران حکومت کی مذاکراتی ٹیم نے ہمیں جے آئی ٹی کے سربراہ کیلئے چند نام بھجوائے جن میں سے ایک نام شاہد حیات کا تھا اس پر ہم نے اتفاق کیا مگر اگلے ہی روز ہمیں کہا گیا کہ وزیراعظم کو اس نام سے اختلاف ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ شاہد حیات بھی پٹھان ہے اور خرم نواز گنڈا پور بھی پٹھان ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ پنجاب حکومت کے ہوتے ہوئے ہمیں انصاف نہیں ملے گا جو حکومت اپنے ہی بنائے ہوئے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کی کاپی دینے کیلئے تیار نہیں اس کے ہوتے ہوئے انصاف کیسے مل سکتا ہے؟