کسانوں کی رہنمائی کیلئے ٹال فری نمبراور ویب سائٹ متعارف کروادی گئی

جمعرات 12 مارچ 2015 13:03

فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔12مارچ۔2015ء)نیشنل آئی ٹی سی فنڈ پراجیکٹ کی معاونت سے قائم کئے گئے کسان سہولت مرکز (ایف ایف سی)کے آغازکے موقع پر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد و منعقد ہ رکشاپ سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایف ایف سی کے ذریعے کسانوں کو اپنے زرعی رقبوں کے زمینی و آبی تجزیئے کی روشنی میں موزوں ترین ٹیکنالوجی اور زمین کیلئے کھادوں کی ضروری مقدار کے تعین و استعمال سے اربوں روپے سالانہ کی بچت ممکن بنائی جا سکے گی۔

پا کستان میں زرعی پیداوار بڑھنے سے کسان اور صارف دونوں خسارے میں رہتے ہیں جبکہ فائدہ مڈل مین کے حصہ میں آتا ہے یہی وجہ ہے کہ امسال قومی ضرورت کے مقابلہ میں 3ملین ٹن زائد آلوکی برآمد کیلئے کسان دھرنوں پر مجبورہیں ،کسانوں کی رہنمائی کیلئے ٹال فری نمبر0800-54726اور ویب سائٹkissandost.pkمتعارف کروادی گئی ہے۔

(جاری ہے)

سٹیک ہولڈرز ورکشاپ سے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقراراحمدخاں، سابق رکن قومی اسمبلی مخدوم سید احمد عالم انور ،سابق وائس چانسلرو ڈائریکٹر پاکستان سنٹر فار ایڈوانسڈ سٹڈیز فوڈ سیکورٹی و ایگریکلچر پروفیسرڈاکٹر بشیر احمد ،سابق ڈی جی ریسرچ پنجاب ڈاکٹر محمد رشید ، اکارڈا کے کنٹری مینیجر ڈاکٹر عبدالمجید، ڈاکٹر مشتاق گل‘ ڈاکٹر احسان اللہ چہل‘ حبیب اختر جیلانی‘ احسن رضا ستار اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقراراحمدخاں نے نے کہاکہ نیوزی لینڈ میں چالیس لاکھ آبادی کیلئے 8جنرل اور 2زرعی یونیورسٹیاں قائم ہیں لہٰذا پاکستان میں بھی جامعات کا آبادی کے لحاظ سے تناسب بہتر بناناہوگا ۔ ان کا کہنا تھا نیوزی لینڈ میں زرعی انڈسٹری کو پرائمری انڈسٹری کا درجہ حاصل ہے جبکہ پاکستان میں سروسز اور انڈسٹریل سیکٹر کے جی ڈی پی میں زیادہ حجم زرعی شعبہ کی مرہون منت ہے۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں طلباء و طالبات کی عملی تحقیقات کے نتیجہ میں چشم کشامعلومات سامنے آ رہی ہیں جنہیں معاشرے کی بہتری اور مشکلات کے حل میں بروئے کار لاناچاہئے کیونکہ جب تک تحقیقات کے ثمرات لوگوں تک نہیں پہنچتے جامعات کی رینکنگ سوالیہ نشان ہی قرار پاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں زرعی پیداوار بڑھنے سے کسان اور صارف دونوں خسارے میں رہتے ہیں جبکہ فائدہ مڈل مین کے حصہ میں آتا ہے یہی وجہ ہے کہ امسال قومی ضرورت کے مقابلہ میں 3ملین ٹن زائد آلوکی برآمد کیلئے کسان دھرنوں پر مجبورہیں۔

سابق رکن قومی اسمبلی مخدوم سید احمد عالم انور نے کہا کہ پاکستان میں 90فیصد سے زائد چھوٹے کاشتکاروں کو زراعت سے جوڑے رکھنے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں کیونکہ آبی وسائل کی کمی اور مہنگے و غیرمعیاری مداخل سے پیداواری لاگت میں اضافہ سے کسان کی آمدنی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ زرعی ترقی کے ثمرات کسان تک پہنچائے بغیرفوڈ سیکورٹی کے جملہ چیلنجز سے نبردآزما ہونے کاخواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔

سابق وائس چانسلرو ڈائریکٹر پاکستان سنٹر فار ایڈوانسڈ سٹڈیز فوڈ سیکورٹی و ایگریکلچر پروفیسرڈاکٹر بشیر احمد نے کہاکہ جن ممالک نے زراعت کیلئے آئی سی ٹی کا سہارا لیا ان کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہواہے ۔ انہوں نے کہاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کیلئے خاطر خواہ غذاء پیدا کی جارہی ہے تاہم پیدا واری لاگت میں اضافہ کے باعث معاشرے کے تمام افراد تک اس کی رسائی ایک بڑا مسئلہ ہے جس سے نبردآزما ہونے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں ۔

انہوں نے نیشنل آئی ٹی سی فنڈ کی معاونت سے ایف ایف سی کے قیام کو اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے اُمید ظاہر کی کہ اس سے کھا دوں کے بے مہابا استعمال پر اُٹھنے والے اربوں روپے کی بچت ممکن ہوگی۔ اکارڈا کے کنٹری مینیجر ڈاکٹر عبدالمجید نے کہا کہ تبدیلی ایک دن میں نہیں آتی اور زرعی شعبہ میں نئی ٹیکنالوجی متعارف کروانا اور اسے رواج دینے کیلئے لمبا عرصہ درکارہوتاہے تاہم چھوٹے کاشتکارکیلئے اس کی قوت کے مطابق پیکیج سامنے لاکراہداف کے حصول میں آسانی پیدا کی جاسکتی ہے۔

سابق ڈی جی ریسرچ پنجاب ڈاکٹر محمد رشید نے کہاکہ منصوبے میں ابتدائی طور پر ضلع ملتان کے کسانوں کیلئے رہنمائی کا عمل شروع کردیاگیا ہے اور جلدہی اس کا دائرہ دوسرے اضلاع تک پھیلا دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کروڑوں موبائل صارفین ہیں جن تک صحیح معلومات پہنچا کرمطلوبہ اہداف حاصل کئے جا سکیں گے۔