پاکستان میں مریضوں کے تحفظ کیلئے نظام صحت کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے ،ڈبلیو ایچ او

ہفتہ 7 مارچ 2015 13:57

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔07مارچ۔2015ء) عالمی ادارے صحت (ڈبلیو ایچ او) کی مشیر مریم قیصر اور ایما ہینکوکس نے کہا ہے کہ پاکستان میں مریضوں کے تحفظ کیلئے نظام صحت کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے خاص طور پر سرکاری کوالٹی کنٹرول لیبارٹریاں نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مقامی ہوٹل میں ایک پریس بریفنگ میں کیا۔

مریم قیصر نے کہا کہ لیبارٹری اسٹاف کی مہارت اور کارکردگی کے باوجود اس ضمن میں بہتری کی مزید گنجائش موجود ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی معیارات کو پورا کرنے کے لیے انفرااسٹرکچر، آلات اور سسٹم کو بھی جدید بنانے کی ضرورت ہے جو لیبارٹری کی بنیاد ہیں۔انہوں نے کہا کہ مریضوں کے تحفظ کے لیے ادویات کی موثر ریگولیشن ضروری ہے اسی طرح مارکیٹ میں موجود ادویات کا معیار اور کارکردگی بھی یقینی بنانی ہوگی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے حوالے سے لاہور کے المناک حادثے کے بعد ڈبلیو ایچ او نے اپنے جائزے میں نیشنل فارما سیوٹیکل کنٹرول لیبارٹریوں کو بھی شامل کیا ہے اور اس جائزے کے بعد اس شعبے کی کارکردگی بڑھانے کی تجویز دی ہے تاکہ نتائج کے بارے وثوق سے اعتبار کیا جاسکے۔سرکاری فارماسیوٹیکل کوالٹی کنٹرول لیب کا مقصد مارکیٹ میں دستیاب مریضوں کے لیے ادویات کا قابل بھروسہ تجزیہ اور ان کی رپورٹ شائع کرنا ہے اور ادویات مینوفیکچررز کے کوالٹی کنٹرول کے مرحلے سے گزر چکی ہیں۔

ان لیبارٹریوں کو معیار کے مطابق پورا نہ ہونے والی ادویات کی نشاندہی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ ایسی ادویات کے بارے میں ریگولیٹری اتھارٹی کی توجہ حاصل کی جاسکے اور اتھارٹی اس کی مزید تحقیقات کرسکے۔ قابل اعتماد، خود مختار اور قواعد کا پابند لیبارٹری تجزیہ مریضوں کے تحفظ کیلئے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو غیر معیاری ادویات کے خلاف حکومت کی کوششوں میں بھی معاون ہوگا۔

یہ لیبارٹریاں جعلی ادویات کی نشاندہی کرنے کے ساتھ مارکیٹ کے تحفظ، غفلت، گڈ مینوفیکچرنگ پریکٹسز، گڈ ڈسٹری بیوشن پریکٹسز کی خلاف ورزی اور جعلی ادویات کے معاملے میں بھی معاون ثابت ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ ہمیں سرکاری کوالٹی کنٹرول لیبارٹریوں کو مزید موثر بنانے کے لیے زیادہ تربیت اور انفرااسٹرکچر کی ضرورت ہے۔ اس مصرف میں ہمیں مزید ورک شاپس کے انعقاد کے لیے بھی کام کرنا ہوگا۔

انہوں نے ڈبلیو ایچ او، ڈی آر اے پی، حکومت اور فارما انڈسٹری کے تعاون اور فارما بیورو اور پی پی ایف کی فنڈنگ کے لیے بھی شکریہ ادا کیا۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے جب پہلی بار سرکاری اور نجی شعبے کے درمیان رکاوٹوں کو ختم کیا گیا ہے، اس طرح بہترین طریقہ کار پر عمل پر بحث و مباحث کی راہ ہموار ہوگی ۔ یہ پروگرام صرف کئی اسٹیک ہولڈروں کے اشتراک سے ہی کامیاب ہوسکتا ہے۔

پاکستان میں اب مریضوں کے تحفظ کا احساس بیدار ہوا ہے اسی طرح معیار اور کوالٹی پوری انڈسٹری اور ڈی آر اے پی کا ہدف ہے۔ یہ صرف ایک ادارے کی ذمہ داری نہیں ہے یہ ایک مشترکہ کاوش ہے جس میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر تعاون ضروری ہے۔ احتیاطی اقدامات پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی اور کسی حادثے کی صورت میں نقصان کے بعد اقدامات کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔

پاکستان میں ادویات کی ریگولیٹری قابلیت کو بڑھانے اور غیر معیاری ادویات سے نمٹنے میں کوالٹی کنٹرول لیب کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے اور اس کے لیے پاکستان کی ادویہ ساز انڈسٹری، ڈبلیو ایچ او، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور انٹرنیشنل ہیلتھ پارٹنرز کا اشتراک شامل ہے۔اس گروپ کا مقصد ہے کہ سرکاری کوالٹی کنٹرول لیب چاہے وفاقی سطح پر ہو یا صوبائی سطح پر ان کے نتائج عالمی معیارات پر پورے اترتے ہوں۔

یہ اس صورت میں ممکن ہے جب لیبارٹریاں ڈبلیو ایچ او کی پری کوالیفکیشن آف کوالٹی کنٹرول لیباٹریز کے مطابق ہوں۔ اس اقدام کی کامیابی اداروں کے درمیان معلومات اور مہارت کے اشتراک میں پوشیدہ ہے اور مینوفیکچررز کی لیبارٹریاں کی پری کوالیفکیشن بھی شامل ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے حکومت پاکستان کی درخواست پر ڈبلیو ایچ او نے کراچی کی سینٹرل ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری اور لاہور کی ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کا ایک تجزیہ کیا تھا جس میں کوالٹی اسٹینڈرڈ کی خامی پائی گئی تھی۔

اس کے لیے مزید گنجائش کی نشاندہی کی گئی تھی جو عالمی سطح پر لیبارٹریوں کو تسلیم کئے جانے کیلئے لازمی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے معیارات پر پورا اترنے کیلئے مزید تربیت کے لیے زور دیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک طویل المدت پروگرام بھی تشکیل دیا گیا جس میں سال 2013 اور 2014ء میں ورک شاپس کا انعقاد بھی شامل تھا اور ملٹی نیشنل کمپنیوں، ریگولیٹرز اور معائنہ کاروں کی طرف سے وفاقی اور صوبائی سطح پر آگہی پیدا کی گئی

متعلقہ عنوان :