سینیٹ میں 12سابق چیف جسٹس کو دی جانیوالی مراعات کی تفصیلات پیش کردی گئیں

جمعہ 6 مارچ 2015 17:01

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔06مارچ۔2015ء) سینیٹ میں 12سابق چیف جسٹس کو دی جانیوالی مراعات کی تفصیلات پیش کردی گئیں ، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بلٹ پروف گاڑی سمیت دیگر مراعات دینے پر اپوزیشن کے شدید اعتراضات عائد کردیئے، چیئرمین معاملے کو اختیارات کے ساتھ کمیٹی قانون و انصاف کو بھجوائیں یا افتخار چودھری کوطلب کرنے کیلئے سمن جاری کریں، اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نے تجویز دیدی، اٹارنی جنرل نے ایوان بالا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد سابق چیف جسٹس کو مراعات دی گئیں، معاملے پر جلد دوبارہ درخواست دائر کرینگے، ایوان کو یقین دہانی۔

جمعہ کو وقفہ سوالات کے دوران حکومت کی جانب سے 1985 سے اب تک ریٹائرڈ ہونیوالے چیف جسٹس کو دی جانیوالی مراعات و سہولیات بارے تحریری طور پر آگاہ کیاگیا ۔

(جاری ہے)

قانون و انصاف ڈویژن کی طرف سے ایوان کو تحریری جواب میں بتایا گیا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ریٹائرمنٹ پر سپریم کورٹ جج (لیو‘ پنشن اور پریویلجز) آرڈر 1977ء کے پیراگراف 16 کے تحت صدر کی طرف سے مقرر کی جانے والی تنخواہ کے 70 فیصد کے مساوی پنشن لینے کے مجاز ہیں چاہے وہ مدت ملازمت چیف جسٹس کی حیثیت سے ہو یا جج کی حیثیت سے‘ انہیں ایک ڈرائیور اور ایک اردلی ،ماہانہ 3000 لوکل کالز‘ دو ہزار یونٹس بجلی‘ ماہانہ 25 ا یچ ایم گیس اور پانی کی مفت فراہمی جیسی سہولیات کے علاوہ ماہانہ 300 لیٹر پٹرول بھی وہ لے سکتے ہیں اور جج کی حیثیت سے ان کے زیر استعمال 1800 سی سی کی سرکاری گاڑی وہ کم قیمت پر خرید سکتے ہیں۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کابینہ ڈویژن کی 6 ہزار سی سی کی بلٹ پروف مرسڈیز بینز کار نمبر GD-0341 استعمال کر رہے ہیں اور قانون و انصاف ڈویژن اسلام آباد ہائیکورٹ کے 15-1-2014 کے فیصلے کے تحت اس کے پٹرول اور مرمت کے اخراجات برداشت کر رہا ہے۔قبل ازیں اٹارنی جنرل کی عدم موجودگی پر چیئرمین سینیٹ سید نیئر حسین بخاری نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور فوراً ان کی طلبی کی ہدایت کی جس کے کچھ دیر بعد اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ ایوان میں حاضر ہوگئے۔

اٹارنی جنرل نے بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس جسٹس(ر) افتخار محمد چوہدری کو 6 ہزار سی سی کی بلٹ پروف گاڑی اور اس کے اخراجات اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر دیئے جارہے ہیں‘ عدلیہ کی آزادی مسلمہ ہے‘ وفاق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کا پابند ہے‘ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے عدالتی اور انتظامی معاملات کے بارے میں سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔

اٹارنی جنرل نے اپوزیشن اراکین کے اعتراض پر کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ان کے خاندان کو ہر ممکن سیکیورٹی فراہم کی جائے اور ان کے استعمال کے لئے بلٹ پروف گاڑی دی جائے جس کے اخراجات کابینہ ڈویژن برداشت کرے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں عدالت میں درخواست گزار شیخ احسن الدین نے درخواست دائر کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہائیکورٹ کا حکم ہے اس لئے ہم اس پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب بھی کوئی جج حلف اٹھاتے ہیں یا ریٹائر ہوتے ہیں تو ان کا نوٹیفکیشن قانون و انصاف ڈویژن دیتا ہے اس کی تمام تفصیلات قانون و انصاف ڈویژن کے پاس موجود ہیں۔ قبل ازیں سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری سے ذاتی پرخاش نہیں رکھتا، ان کیلئے جدوجہد کی کبھی داد نہیں لی نہ پیش ہوا،ان کے سامنے دوست بڑی بڑی فیسیں لے کر پیش ہوتے رہے،ستمبر2011ء میں ان کے برخودار کے کارناموں کی فائل لے کر گیا جو کہ بظاہر بڑی سنگین کرپشن کے ثبوت تھے انہوں نے ایکشن لینے کے بجائے تحفظ ہی دیا۔

5thشیڈول میں یہ چیزیں نہیں ہیں،65 سال کی عمر کے بعد جج عام شہری ہوتا ہے، ایوان کو بتایا جائے کہ کیا ہائی کورٹ نے پٹرول کتنا دیا جائے یہ بھی کہا ہے،اگر ایسا نہیں ہے تو 36 لاکھ روپے مرمت کے اور پٹرول کے اخراجات وصول کئے جانے چاہیئیں، اٹارنی جنرل انٹرا کورٹ اپیل کیلئے بار بار ہائی کورٹ کیوں نہیں کئے، آرٹیکل 68 رولز 226 بھی اپلائی نہیں، شیڈول5سے مراعات تجاوز کرتی ہیں، قوم کا پیسہ ہے اگر دینا ہی ہے تو قومی اسمبلی سے منظور کروا کے دیں، کہاں سے اور کیسے پیسے دیئے جا رہے ہیں جواب بھی دینا پڑے گا۔

چیئرمین سید نیئر حسین بخاری نے کہا کہ تمام ریٹائرڈ چیف جسٹس صاحبان کے ساتھ مساوی سلوک کیا جانا چاہیے۔ بعدازاں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس معاملے پر وضاحت کیلئے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو طلب کرنے کیلئے کمیٹی قانون و انصاف میں معاملات بھجوایا جائے اور اسے اختیار دیا جائے کہ وہ اس معاملے پر سمن جاری کرسکے دوسری صورت میں خود سینیٹ افتخار محمد چودھری کو طلبی کیلئے سمن جاری کرے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ججوں کی دوہری شہریت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں زیر التواء کیسوں کے سوال بھیجے تھے ، کوئی جواب نہیں دیا گیا صرف ایک ہائی کورٹ سے جواب آیا کہ آزاد عدلیہ میں مداخلت ہے، آرٹیکل 19Aعام شہری کو بھی سوال کرنے کا حق دیتا ہے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ قانون کی تشریح عدالت کا حق ہے عملدرآمد ضروری ہے۔ حاجی عدیل نے کہا کہ ہم نے بھی گھٹنا تڑوایا تھا ”تحریک بحالی جہالت“ میں، چیئرمین قرار داد کو نہ دیکھیں بلکہ اس معاملے پر رولنگ دیں۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اس حوالے سے قرار داد پیش کرنا چاہی تو چیئرمین سینیٹ سید نیئر حسین بخاری نے کہا کہ پیر کو اراکین کے نجی دن کے موقع پر قرار داد پیش کی جائے۔

متعلقہ عنوان :