سندھ اور پنجاب میں 20 ستمبر تک بلدیاتی انتخابات کرا نے کا حکم

سپریم کورٹ نے10 مارچ تک الیکشن کمیشن سے دونوں صوبوں کے لئے انتخابی شیڈول طلب کر لیا

جمعہ 6 مارچ 2015 14:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔06مارچ۔2015ء) سپریم کورٹ نے سندھ اور پنجاب میں 20 ستمبر تک بلدیاتی انتخابات کا حکم دیتے ہوئے 10 مارچ تک الیکشن کمیشن سے دونوں صوبوں کے لئے انتخابی شیڈول طلب کیا ہے۔ اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے لئے بھی 10 مارچ کو انتخابی شیڈول طلب جبکہ کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات کے لئے 30 مئی 2015ء اور کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات کے لئے عدالت نے 25 اپریل کی حتمی تاریخ مقرر کر دی ہے عدالت نے پرنٹنگ مسائل کے لئے کابینہ ڈویژن کو لکھے گئے خطوط کا تمام ریکارڈ الیکشن کمیشن سے طلب کیا ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات میں ایک دن کی بھی بلا جواز تاخیر کی اجازت نہیں دیں گے کسی کو پسند ہو یا ناپسند آئین پر ہی عمل درآمد کرنا ہو گا۔

(جاری ہے)

الیکشن کمیشن اور حکومت ایک دوسرے کے دشمن ہو سکتے ہیں مگر عدالت نہیں۔ سیاسی جماعتیں نہیں اصل اسٹیک ہولڈرز عوام ہیں۔ انہوں نے یہ ریمارکس جمعہ کے روز ادا کئے ہیں۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے گزشتہ روز بلدیاتی انتخابات اور وزیراعظم نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواستوں کی سماعت کی۔ اس دوران اٹارنی جنرل موجود نہیں تھے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل طلب کیا عدالت کا کہنا تھا کہ گزشتہ رات جو الیکشن کمیشن نے جواب داخل کیا تھا اس میں شیڈول کم اور مسائل زیادہ تھے ہمیں اس پر تحفظات ہیں ہم نے پہلے ہی کہا ہے کہ جتنے روز کم ہو سکتے ہیں وہ کم کئے جائیں اور جلد سے جلد بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔

اس شیڈول میں جو ٹائم دیا جا رہا ہے وہ بہت زیادہ ہے کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا حل نہ ہو۔ الیکشن کمیشن رات دن کام کرے تو الیکشن کرانا کوئی مشکل نہیں ہے۔ بعد ازاں اٹارنی جنرل پیش ہوئے انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد میں ہم ہفتے کے روز پارلیمنٹ میں بل پیش کر رہے ہیں اس کے لئے مہلت دے دیں جس پر عدالت نے اسلام آباد میں 10 مارچ کو بلدیاتی انتخابات کا شیڈول مانگا ہے۔

الیکشن کمیشن نے عدالت سے استدعا کی کہ کنٹونمنٹ بورڈ میں 25 اپریل کی بجائے 2 مئی کو انتخابات کرائے جائیں۔ ان تجاویز کو عدالت نے مسترد کر دیا اور کہا کہ کنٹونمنٹ میں 25 اپریل کو ہی بلدیاتی انتخابات ہونگے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کسی کی مرہون منت نہیں ہے کہا جاتا ہے کہ اس میں ہمارا مفاد ہے اس میں ہمارا نہیں عوام کا مفاد پوشیدہ ہے۔

حکومت من پسند شقوں پر عمل کر لیتی ہے اس پر کیوں نہیں عمل کرتی۔ حکومت اور الیکشن کمیشن بتائے کہ ان کی من پسند شقیں کون سی ہیں۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن ڈاکٹر شیر افگن نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں اصل اسٹیک ہولڈرز سیاسی جماعتیں ہیں اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ غلط کہتے ہیں اصل اسٹیک ہولڈرز سیاسی جماعتیں نہیں اس ملک کی عوام ہے۔

بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی ہم عوام کے لئے چاہ رہے ہیں ڈاکٹر شیر افگن نے بتایا کہ اگر ہمارے مسائل حل کر دیئے جائیں تو ہم پنجاب اور سندھ میں 20 ستمبر کو انتخابات کرانے کو تیار ہیں۔ اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ کا اصل مسئلہ کونسا ہے اس پر انہوں نے بتایا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اگر پرنٹنگ پریس کارپوریشن آف پاکستان کو 2 مشینیں اور دے دی جائیں تو ان کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

ان مسائل کے حل کے لئے الیکشن کمیشن نے کابینہ ڈویژن کو خطوط بھی لکھے تھے جن پر تاحال کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔ جس پر عدالت نے کہا کہ آپ ان خطوط کا ریکارڈ عدالت میں پیش کریں۔ بلدیاتی انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی آئینی اور قانونی اخلاقی ذمہ داری ہے کیونکہ اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ اگر الیکشن کمیشن یہ انتخابات نہیں کراتا تو پھر بتائے کہ اس کی اصل ذمہ داری ہے کیا۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 10 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول پنجاب اور سندھ میں 20 ستمبر 2015ء کی حتمی تاریخ کے مطابق انتخابی شیڈول الیکشن کمیشن سے طلب کیا ہے جبکہ عدالت نے کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات کے لئے 30 مئی 2015ء اور کنٹونمنٹ بورڈز میں 25 اپریل کی حتمی تاریخیں مقرر کرتے ہوئے انہی تاریخوں کے مطابق بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب اور سندھ میں تین مراحل کے تحت جو بلدیاتی انتخابات کرانے کا شیڈول سپریم کورٹ میں جمع کرایا تھا اس سے دست برداری اختیار کر لی۔ یہ چوتھی بار تھا کہ جب الیکشن کمیشن نے یہ شیڈول عدالت میں پیش کیا تھا۔ جمعرات کو رات کے وقت اٹارنی جنرل پاکستان نے الیکشن کمیشن کی جانب سے جو شیڈول جسٹس جواد ایس خواجہ کے چیمبر جمع کرایا گیا تھا اس میں الیکشن کمیشن نے شیڈول سے زیادہ اپنے مسائل کا رونا رویا تھا۔