سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن سے کے پی کے‘ سندھ‘ پنجاب‘ اسلام آباد اور کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات کا حتمی شیڈول مانگ لیا

بدھ 4 مارچ 2015 17:01

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔04مارچ۔2015ء) سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن سے کے پی کے‘ سندھ‘ پنجاب‘ اسلام آباد اور کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات کا حتمی شیڈول مانگ لیا اور خبردار کیا کہ اگر حتمی شیڈول نہ مل سکا تو پھر (آج) جمعرات کو فیصلہ جاری کردیں گے‘ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے کہ عوام کے حقوق کے تحفظ کیلئے ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ ایک وزیراعظم جاتا ہے یا دو‘ برداشت کی حد کی انتہاء پر پہنچ چکے ہیں‘ ضرورت ہوئی تو وزیراعظم کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے‘ یہ ناخوشگوار کام ہم نہیں کرنا چاہتے مگر کیا کریں کرنا پڑے گا‘ ہمارے نزدیک آئین و قانون مقدم ہے‘ اس کے مقابلے میں کسی کی کوئی حیثیت نہیں‘ وزیراعظم سمیت سب نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے جبکہ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دئیے کہ کنٹونمنٹ بورڈز سمیت صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے کیلئے الیکشن کمیشن کو کسی قانون کی ضرورت نہیں ان کو انتخابات کرانے کا اختیار آئین نے دیا ہے وہ جائیں اور اس پر عمل کریں۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دئیے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل سلمان بٹ پیش ہوئے اور بتایا کہ ڈرافٹ تیار ہے مشاورت جاری ہے۔ حکومت پرانے قانون کے تحت الیکشن کرانے کو تیار ہے۔ 12 مارچ کی انڈر ٹیکنگ دیتے ہیں اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ آپ حکومت کی نمائندگی نہیں کررہے بلکہ آپ کو عدالتی معاونت کیلئے نوٹس جاری کیا گیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کو یقین دہانی کراتا ہوں ض کہ 48 گھنٹے میں قانون سازی کرلی جائے گی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ 17 سال ناکافی ہیں‘ 9 سال ناکافی ہیں‘ 48 گھنٹے میں رسپانس دے دیا۔ چیف ایگزیکٹو کو رسپانڈ کرتے رہیں۔ عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں‘ پتہ نہیں وہ کہاں طاقت کا سرچشمہ ہیں۔ یہ آرٹیکل آئین بن گیا۔ 2010ء سے اب تک پانچ سال مزید ہوگئے ہیں‘ 17 سال میں کچھ نہ ہوا تو 48 گھنٹے میں کیا ہوگا۔

گڈرئیے کی کہانی نہیں تھی کہ شیر آیا‘ شیر آیا‘ لوگ جاتے تھے مگر شیر نہیں ہوتا تھا۔ ہر روز یہی ہوتا رہا آخر کوئی نہ آیا اور شیر واقعی آگیا۔ آپ ہمیں قائل کریں کہ یہ کام ہوجائے گا۔ اس کام کو 17 سال ہوگئے ہیں عوام کو کسی کی پرواہ تک نہیں ہے۔ قانون بن جاتا تو اور بات تھی۔ حکم جاری کرکے تھک چکے ہیں۔ درخواست گزار رب نواز نے کہا کہ منیر اے ملک جب اٹارنی جنرل تھے تو انہوں نے بھی آپ کو حلف دیا تھا مگر انہوں نے بھی اس پر عمل نہیں کرایا۔

درخواست گزار رب نواز نے عدالتی حکم بارے تفصیل سے بتایا۔ عدالت نے کہا کہ یہ ہمارا کیسا حکم ہے۔ رب نواز نے بتایا کہ 3 جنوری 2013ء کا آرڈر ہے۔ 2 جولائی 2013ء کو بھی حکم جاری کیا گیا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم کسی کے ذہن میں داخل نہیں ہوسکتے۔ ہم حالات و واقعات سے معاملات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اگر ہم آرڈر لکھیں تو اس میں بھی لکھا ہوا ہے۔ آئینی پروویژنز کو کسی نہ کسی طریقے سے نظرانداز کیا جارہا ہے جو 2013ء میں کہہ رہے تھے وہی آج بھی کہہ رہے ہیں۔

عوام کے حقوق عوام کو دلانا حکومت کا فرض ہے وہ نہیں دلائے گی تو ہم دلائیں گے۔ وزیراعظم سمیت سب آئین کے محافظ ہیں اور سب نے آئین کے تحفظ کا حلف لیا ہوا ہے۔ حلف میں لکھا ہوا ہے کہ آئین کا تحفظ کریں گے۔ 17 سال گزر گئے۔ 1998ء میں انتخابات ہوئے تھے۔ رب نواز نے بتایا کہ اسلام آباد میں بھی انتخابات نہیں ہوئے۔ جنرل نے بھی 1999ء میں کنٹونمنٹ بورڈز میں انتخابات ختم کردئیے تھے۔

جسٹس جواد نے کہاکہ آئین کا آرٹیکل 140 اے آئین کا حصہ ہے اور المیہ یہ ہے کہ کوئی اس پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔ ہمیں کچھ تو کرنا پڑے گا تبھی معاملات ٹھیک ہوسکیں گے۔ ہمیں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم کو نوٹس جاری کیا گیا تو ملک عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا‘ ایسا نہیں ہوگا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم نے تو ہر جگہ انتخابات کرانے کا کہا ہے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ ایک وزیراعظم گیا تو دوسرا آگیا۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات کرانے کیلئے کسی ترمیم کی کیا ضرورت ہے؟ جب سب کچھ پہلے سے موجود ہے۔ موجودہ قوانین میں یہ سب کچھ ہوسکتا ہے۔ یہ حکم پہلے ہی جاری کرچکے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت میں مذکورہ حکم پڑھ کر سنایا۔ جسٹس جواد نے کہاکہ جس بندے کا خط پڑھا تھا وہ بیچارہ خود کو شہری سمجھتا ہے۔

قانون کا مقصد اس کو اختیارات دینا ہے۔ کیا پہلے کے قوانین چل رہے ہیں اور نئے قانون بننے تک پہلے کے قوانین کام کریں گے۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ کیا پرانا بورڈ کام کرتا رہے گا۔ درخواست گزار رب نواز نے کہا کہ کنٹونمنٹ بورڈ ایکٹ کے مطابق بلدیاتی نمائندوں کا عرصہ چار سال رکھا گیا ہے۔ پرانے عہدیدار نئے انتخابات تک کام کرسکتے ہیں۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ کیوں نہ تمام کنٹونمنٹ بورڈز کے سابقہ منتخب ممبران کو بحال کردی۔

کچھ مرگئے ہوں گے باقی تو موجود ہوں گے۔ حکومت تلی ہوئی ہے کہ انتخابات نہیں کرانے‘ ہمارے پاس آئین موجود ہں کیوں نہ اس کی آئین کو استعمال کرلیا جائے۔ جن کی وفات ہوچکی ہے 30 روز میں ان کی جگہ اور آجائیں گے۔ ہمارے آرڈر میں یہ سب کچھ لکھا ہوا ہے۔ موجودہ قوانین میں یہ کام نہیں ہوسکتا۔ رب نواز نے بتایا کہ رولز 2002ء کے ہیں‘ قانون 1924ء کا کام کررہا ہے اس کے تحت رولز نہیں بنائے گئے۔

اب آکر نئے رولز بنائے گئے ہیں۔ حکومت کے مطابق 2012ء کے رولز ہی استعمال کرنا ہوں گے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ کس کے تحت انتخابات ہوسکتے ہیں وہ بتائیں؟ جسٹس جواد نے کہا کہ 23 احکامات ایک جیسے ہیں جس میں حکومت نے وقت مانگا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اب ان چیزوں کو کردینا چاہئے۔ ملک عدم استحکام کا شکار نہیں ہوگا۔ آئین کی پابندی سے تو ملک مضبوط ہوں گے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کام ہے کہ وہ الیکشن کرائے یہ ہمارا کام نہیں ہے۔ حکومت نے الیکشن کمیشن کیساتھ مل کر آرڈیننس تیار کیا ہے۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ آئین نے الیکشن کرانے کے اختیارات الیکشن کمیشن کو دئیے ہیں وہ کیوں نہیں کراتے۔ انہوں نے سیکرٹری شیرافگن سے کہا کہ کیا کوئی رکاوٹ ہے۔ شیرافگن نے کہا کہ 1924ء کے تحت ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔

140 اے دوسرے انتخابات ہیں اس کا کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات نہیں ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ایک طررف ایک ادارہ ہے کہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے دوسرا ادارہ کہتا ہے کہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ شیرافگن نے کہا کہ قانون بن جاتے ہیں تو ہم تیار ہیں۔ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات بھی تو بلدیاتی انتخابات ہی ہیں یہ الگ سے کیسے ہوگئے۔ آئین کا مذاق اڑانا بند کردیں۔

عام لوگوں کو دھوکہ دینا چھوڑ دیں جو ذمہ دار ہے اس کیخلاف کارروائی کریں گے۔ شہریوں کو تو اس غلط فہمی سے نکالا جائے کہ وہ اس ملک کے آئینی و قانونی شہری ہیں ان کے بھی کوئی حقوق ہیں۔ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ ان کے پاس اختیار نہیں۔ وفاق کہہ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کرانے ہیں۔ سیکرٹری شیرافگن نے کہاکہ وہ تیار ہوکر نہیں آئے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ان کا یہ بیان ریکارڈ کریں کہ جس کے تحت یہ کہتے ہیں کہ یہ 1924ء کے تحت ان کا اختیار نہیں ہے۔

جب ان سے کہا گیا کہ آرٹیکل 219 نے آپ کو جو اختیار دیا ہے ا سکا کیا ہوگا جس میں بلدیاتی انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے یا آپ آئین خود سمجھ لیں یا ہمیں سمجھادیں۔ جو کچھ آپ نے کرنا ہے ایک دوسرے سے مشاورت کرلیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سینٹ نے تین بجے بلایا ہے۔ عدالت نے کہاکہ ابھی بہت وقت ہے آپ کو موجود رہنا ہوگا۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم اپنے اختیارات سے تجاوز کررہے ہیں۔

سپریم کورٹ کو اس سے کیا فائدہ مل جاتا ہے۔ ایک سے دوسری انڈر ٹیکنگ دی گئی ہے۔ اب تک 23 حلف نامے دیئے جاچکے ہیں اب 24 واں تیار ہے۔ عدالت نے کیا سیخ پاء ہونا ہے یہ حکومت اور الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے اور ہم سب آئین کے پابند ہیں۔ چاہے کوئی وزیراعظم ہو یا الیکشن کمیشن سب نے آئین کی پابندی کرنی ہے۔ آپ گھر جاکر کہتے ہوں گے کہ عدالت 23 بار پہلے ہی سماعت ملتوی کرچکی ہے اب بھی کردے گی۔

1998ء سے الیکشن ہی نہیں ہوئے۔ ہمارے پاس سینکڑوں خطوط آرہے ہیں۔ ہم انفرادی طور پر کسی کو جواب لکھ کر نہیں بھیج سکتے کہ آپ حکومت سے رباطہ کریں۔ الیکشن کمیشن پر قرض ہے جو ادا نہیں ہورہا۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کیا کررہی ہے۔ عوام الناس کہتے ہیں کہ آپ کو ہم نے بٹھایا ہے اگر آپ نے کچھ نہیں کرنا تو گھر چلے جائیں۔ ہم عوام الناس کو کیا جواب دیں ہر ادارے کا وجود عوام کی رضامندی سے ہے۔

کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کا شیڈول دیں۔ بلوچستان نے پتہ نہیں کیسے الیکشن کرادئیے ہیں۔ ایک صوبہ ہے کے پی کے وہ بھی الیکشن کرانے کو تیار ہے جو تاریخ دے دیں ہم کرادیں گے۔ الیکشن کمیشن تاریخ نہیں دے رہا۔ ایک تاریخ الیکشن کمیشن کے وکیل نے مئی کی دی جبکہ الیکشن کمیشن کا نمائندہ عبدالرحمن نے کہا ہے کہ ابھی شیڈول جاری نہیں کیا ابھی اس میں وقت لگے گا۔

ہم پاکستان کے لوگوں کو جوابدہ ہیں۔ ساڑھے گیارہ بجے نوٹیفکیشن جمع کروائیں۔ اٹارنی جنرل نی بتایا کہ کنٹونمنٹ بورڈ اور الیکشن کمیشن کیساتھ بات چیت ہوئی ہے کچھ تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا ہے جس سے عدالت کو آگاہ کریں گے اس پر عدالت نے کہا کہ ہمیں نوٹیفکیشن چاہئیں بعد میں بات کرتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ تاریخیں بتادیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہمارے لئے یہ مسئلہ بنا ہوا ہے۔

اکرم شیخ کہہ گئے ہیں کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کرانے کا مقروض ہے۔ یہ عوام کا قرض ادا کرنے کا پابند ہے۔ اب ہم اپنی برداشت کی انتہاء پر پہنچ چکے ہیں۔ 17 سال گزر گئے۔ طاقت کا سرچشمہ عوام کو کچھ نہیں مل سکا۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ ہم نے معاملے کو دو چیزوں میں تقسیم کردیا ہے۔ نئی ووٹر لسٹیں بنانے کی ضرورت ہے۔ 2013ء تک یہ فہرستیں بنادی گئی ہیں۔

راجہ رب نواز کا بھی یہی خیال ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ووٹرز لسٹیں بنانے کی بات اپنی جگہ مگر انتخابات ہونا ناگزیر ہیں۔ اگر ہونا ہیں تو آپ انتخابات کا شیڈول بنادیں۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ شیڈول جاری کریں گے۔ جستس جواد نے کہا کہ اگر ہمیں روشنی کی کوئی کرن نظر آئے گی تو معاملہ چھوڑیں گے۔ میں نے تو یونین کونسل کا الیکشن نہیں لڑنا ہمارے لئے اہمیت آئین و قانون کی ہے۔

ڈاکٹر شیرافگن نے بتایا کہ کے پی کے‘ پنجاب اور سندھ کے حوالے سے شیڈول ہم نے دے دئیے ہیں۔ 6 سے 8 آر اوز اور ڈی آر اوز مقرر کردئیے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ پہلے کنٹونمٹ بورڈز کی جانب آتے ہیں پھر صوبوں کی طرف جائیں گے۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ اسلام آباد میں آج تک بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے۔ کنٹونمنٹ بورڈ کا شیڈول بتائیں کہ وہ کدھر ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ موجود قوانین کے تحت انتخابات کرادیں۔

الیکشن کمیشن یہ بھی سمجھادے کہ اتنی ہی فہرست مرتب کرنا ان کی ذمہ داری ہے اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔04مارچ۔2015ء کیوں شروع نہیں کیا اب تو ٹیکنالوجی بھی آچکی ہے۔ ہم آپ کی معاونت کرسکتے ہیں۔ شیرافگن نے کہا کہ نادرا کے پاس نظام ہے اس کے تحت سب کچھ اپ ڈیٹ ہوگا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کنٹونمنٹ میں پیدائش و اموات کی رجسٹریشن بروقت کی جارہی ہے۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ 17 سال بعد ہمیں انتخابی فہرستوں کے اپ ڈیٹ کرنے کا کیوں کہا جارہا ہے۔ رب نواز نے کہا کہ 17 روز میں فہرستیں اپ ڈیٹ کردیں۔ شیرافگن نے کہا کہ اس حوالے سے 7 روز نہیں بلکہ 35 روز لگیں گے گھر گھر جانا پڑے گا۔ نادرا سے اس کی تصدیق بھی کرائیں گے۔ رجسٹریشن آفیسرز کا تقرر اور فارموں کی چھپائی بھی کرانی ہوگی۔ 300 ڈسپلے سنٹر بنارہے ہیں وہاں پر کاغذات پہنچانے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ یہ کام 2014ء میں ہوجانا چاہئے تھا۔ شیرافگن نے کہاکہ یہ کام ہوچکا ہے سامان پہنچادیا گیا ہے لوگ اپنا فارم بھریں گے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ اپنے فرائض سے غفلت نہیں کرسکتے۔ آپ کو بھاری تنخواہیں دی جاتی ہیں ہر طرح کی سہولیات دستیاب ہیں۔ یہ ایک مستقل ادارہ ہے اور انتخابات کے سواء اس کا کوئی اور کام ہی نہیں ہے اور آپ بتارہے ہیں کہ آپ نے یہ نہیں کیا۔

پہلے یہ کبھی ہوا ہے کہ جس کا جو کام ہے وہ کام نہیں کیا اور اب کیا جارہا ہے کہ تیاری کیلئے مزید وقت دیا جائے۔ ایک سال تک الیکشن کمیشن کی تشکیل نہیں ہوئی یہ تو اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے مجھے تو شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ عدالتت چھانٹا لے کر کسی کے پیچھے پڑ جائے گی تو وہ کام کرے گا۔ ایک سال کا عرصہ گزر گیا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ پچھ پرتیت پانچ سالوں سے کررہے ہیں۔

14 ماہ کیلئے چیف الیکشن کمشنر کیوں نہیں تھا۔ توہین عدالت کی کارروائی کا کہا تو اگلے دن یہ مقرر کردئیے گئے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ہر قدم پر ہمیں عوام کی جانب سے سونپا گیا اختیار جس کی ضرورت نہیں‘ ہمیں اختیار کرنا پڑ رہا ہے۔ کل ہم نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کا کہا تھا ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ عوام کے حقوق کے تحفظ کیلئے ایک وزیراعظم جاتا ہے یا دو‘ اب 48 گھنٹے کی بات کی جارہی ہے۔

اگر ہمیں ہر روز اس طرح کا حکم جاری کرنا پڑ جائے تو کیا مناسب ہوگا؟ نومبر 2014ء میں آرڈیننس جاری کرنے کا وعدہ کیا تھا یہ آرڈیننس کیوں جاری نہیں ہوا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ووٹر فہرستوں اور حد بندیوں کا آرڈیننس جاری ہوچکا ہے اب کنٹونمنٹ بورڈز کے حوالے سے کسی آرڈیننس جاری کرنے کی ضرورت نہیں اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ ہم پانچ سال سے پانی کچھ رہے ہیں۔

کیوں حکومت ہم سے لہروں پر لکیریں لگوارہی ہے۔ الیکشن کمیشن اور حکومت کچی جماعت کا طالبعلم کیوإں بن رہے ہیں کہ جن کے پیچھے پیچھے ہمیں چھانٹا لے کر گھومنا پھرنا پڑ رہا ہے۔ شیرافگن نے کہا کہ صوبوں کے نظاموں میں نمایاں فرق ہے۔ کوئی ناظم کا نظام چاہتا ہے تو کوئی چیئرمین بنانا چاہتا ہے۔ 1924ء کا قانون چل رہا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ 2010ء کو اس میں ترمیم آچکی ہے اور اس کو پانچ سال کا عرصہ بھی گزر چکا ہے۔

اگر کہیں آئین و قانون میں تضاد آجاتا ہے تو کیا ہم اس کو ختم کرنے کیلئے خود سے قواعد مرتب کرسکتے ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگر ہم نے یہ کام کیا تو عدالت میں چیلنج ہوجائے گا اور ہم وہیں جاکھڑے ہوں گے جہاں سے چلیں گے۔ جسٹس جواد نے کہاکہ وہ وقت آنے پر دیکھا جاسکتا ہے آپ تیاری تو کرتے۔ شیرافگن نے کہاکہ حکومت کیساتھ سینٹ انتخابات کے فارم پر بھی کافی تضاد چلتا رہا اور اب تک اسی کو حل کیا جاتا ہے۔

وہ ساری ذمہ داری ہم پر ڈال رہے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ عوام کو ووٹ کا جو حق ملا ہے آپ کام کرتے تو یہ مسئلہ ختم ہوچکا ہوتا۔ ایسا ہوگا تو ہم دیکھ لیں گے۔ پنجاب اور سندھ کہہ رہے ہیں کہ قانون سازی تو ہوتی ہے مگر موثر نہیں ہے۔ قانون بنانا وفاق اور صوبوں کی صوابدید ہے۔ اگر آپ انتخابات کراتے تو کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا تو وہ ہمارے پاس آتا۔

اس کا جواب دے دیتے۔ قانون نہیں بھی ہوگا تب بھی آپ صوبوں میں انتخابات کرائیں گے۔ یہ اختیار آپ کو آئین نے دیا ہے۔ آئین کہہ رہا ہے کہ آپ نے انتخابات کرانے ہی کرانے ہیں اس سے آپ روگردانی نہیں کرسکتے۔ جسٹس سرمد جلال نے کہا کہ سپریم کورٹ آپ کو موجودہ قوانین کے تحت انتخابات کرانے کا اختیار دے چکی ہے۔ جسٹس جواد نے کہ اکہ یہ چکر ہی کچھ اور ہے کہ حکومت نے انتخابات ہی نہیں کرانے۔

شیرافگن نے کہاکہ مجھے یہ فیصلے چیف الیکشن کمشنر کے روبرو رکھنے اور ہدایات حاصل کرنے کی اجازت دیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم اپنے سینئر ممبر اور چیف الیکشن کمشنر کو نہیں بلانا چاہتے ہم آپ کو کیوں کہیں‘ ہم پہلے ہی فیصلہ دے چکے ہیں۔ چاہے کوئی بھی سرکار ہے‘ بھول جائیں کہ ہم آپ کو اس حوالے سے مزید وقت دیں گے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے الیکشن کمیشن سے کہا کہ آپ آگے بڑھیں ساری قوم اور عدلیہ آپ کو سپورٹ کرے گی۔

جسٹس جواد نے کہا کہ ہمیں خیال تھا کہ حکومت آرڈیننس جاری کردے گی مگر وہ ایسا نہیں کررہی۔ ہم 8 بے رات کو دوبارہ اکٹھے ہوسکتے ہیں الیکشن شیڈول دے دیں تو بہتر ہے۔ شیرافگن نے کہاکہ سینٹ کے 5 مارچ کو انتخابات ہوں گے اور میں نے اس کی تیاری بھی کرنی ہے مجھے اجازت دیں۔ جسٹس جواد نے کہاکہ ان کا یقین ہے کہ اسمبلیوں میں بڑے معزز لوگ ہی منتخب ہوتے ہیں ایسے ہی باتیں کی جارہی ہیں۔ شیرافگن نے بتایا کہ صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک سینٹ الیکشن ہوں گے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ رات 8 بجے تک کے پی کے‘ سندھ‘ پنجاب اور کنٹونمنٹ بورغڈز اور اسلام آباد میں شیڈول بناکر دیں۔ پونے 8 بجے بیٹھنے کے بارے میں بتائیں گے۔ اگر شیڈول نہ جاری کیا گیا تو ہم آرڈر جاری کردیں گے۔