عارضی رہائش پذیر افراد کی معلومات سے متعلق بل کثرت رائے سے منظور ،کورم پورانہ ہونے کی وجہ سے حکومت تین بل منظور نہ کر اسکی

بدھ 4 مارچ 2015 16:14

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔04مارچ۔2015ء)صوبائی اسمبلی کے ایوان نے مسودہ قانون عارضی رہائش پذیر افراد کی معلومات پنجاب 2015کثرت رائے سے منظور کر لیا جبکہ کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے حکومت ایجنڈے پر موجود دیگر تین بل منظور نہ کراسکی ،پارلیمانی سیکرٹری برائے آبپاشی نے اپوزیشن رکن ڈاکٹر وسیم اختر کے پاکستان میں کالا باغ ڈیم کے مخالفین میں بھارت کی جانب سے 18ارب سالانہ تقسیم کرنے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کالا باغ ڈیم پاکستان کی بقاء کا مسئلہ ہے اور یہ منصوبہ ملکی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ، اس کی فزیبلٹی تیار ہے اگر اس منصوبے پر فوری آغاز کر دیا جائے تو اسے چھ سال کے عرصے میں مکمل کیا جا سکتا ہے ،پانی چوری کے مقدمے کو ناقابل ضمانت بنانے اور جرمانے میں اضافے کی سمری وزیر اعلیٰ سے منظوری کے بعد کابینہ کمیٹی کو بھجوا دی گئی ہے ،بہاولپور میں نئی نہر نکالنے کے لئے ورلڈ بینک سے بات چل رہی ہے جبکہ دریائے ستلج کے پانی سے بہاولپور میں ایک مصنوعی جھیل بھی بنائی جائیگی جسکے لئے 7مارچ کو اجلاس ہونا ہے ۔

(جاری ہے)

پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز بھی مقررہ وقت دس بجے کی بجائے ایک گھنٹہ دس منٹ کی تاخیر سے قائمقام اسپیکر سردار شیر علی گورچانی کی صدارت میں شروع ہوا ۔ پارلیمانی سیکرٹری چوہدری خالد محمود ججہ نے محکمہ آبپاشی سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ۔ ڈاکٹر وسیم اختر کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری نے ایوان کو بتایا کہ محکمے کے پاس کل 435ریسٹ ہاؤسز ہیں ،87ریسٹ ہاؤسز فروخت کئے جا چکے ہیں جبکہ 75سر پلس کی فروخت کیلئے بھی محکمہ ریو نیو کو لکھ دیا گیا ہے ۔

پیپلز پارٹی کے سردار شہاب الدین نے ضمنی سوال میں کہا کہ محکمہ آبپاشی کے ریسٹ ہاؤسز کے ساتھ 50سے 100ایکڑ اراضی بھی ہوتی ہے جو بیکار پڑی ہے کیا اسے لیز پر دیا جاتا ہے ۔ پارلیمانی سیکرٹری نے جواب میں کہا کہ پچاس سے سو ایکڑ اراضی کی بات درست نہیں البتہ تین سے پانچ ایکڑ تک اراضی ہوتی ہے جسے وہاں موجود ملازمین کاشت کرتے ہیں۔ سردار شہاب الدین نے کہا کہ میں نشاندہی کر سکتا ہوں کہ داسو بنگلہ ریسٹ ہاؤس میں 52ایکڑ رقبہ ہے جسے ایک ایم پی اے کاشت کر رہا ہے ۔

ڈاکٹر وسیم اختر کے دوسرے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری نے ایوان کو بتایا کہ بی آر بی ڈیی لنک کنال سے نکلنے والی نہر لاہور برانچ شہر کے درمیان سے گزرتی ہے اس میں ڈالے جانے والے سیوریج کے پانی کی پائپوں کی تعداد 9رہ گئی ہے سپریم کورٹ اس پر نو نوٹس لے چکی ہے اب انہیں بھی ختم کیا جارہا ہے اور میں ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ چھ ماہ میں انہیں ختم کر دیا جائیگا۔

پہلے نہر میں ڈالے جانے والے سیوریج کے پائپوں کی تعداد 30تھی جو کم ہو کر 9رہ گئی ہے۔ قائمقام اسپیکر نے بھی کہا کہ نہر میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ نہا رہے ہوتے ہیں اس لئے انہیں جلد از جلد ختم کرایا جائے۔ ڈاکٹر وسیم اختر نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق سوال کے حوالے سے با ت کرتے ہوئے کہا کہ حکمران وہ منصوبے شروع کرتے ہیں جو انکے دور حکومت میں پورے ہو سکیں تاکہ انہیں سیاسی فائدہ ہو سکے ۔

کالا باغ ڈیم انتہائی ضروری ہے اور اسکے لئے عملی کاوشیں ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ انجینئرنگ کانگریس کا ایک وفد ملاقات میں بتا چکا ہے کہ لاہور ‘ کراچی اور گوجرانوالہ کے چیمبر ز آف کامرس یہ پیشکش کر چکے ہیں کہ حکومت اس ڈیم کے لئے باہر سے ایک روپے کا قرضہ لے اور نہ خود کوئی رقم مختص کرے تینوں چیمبرز مل کر کالا باغ ڈیم بنا کر دیں گے اور وہ لاگت کی رقم بجلی ‘ پانی اور دیگر ٹیکسوں سے پوری کر لیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ یہ خالصتاً تکنیکی معاملہ ہے لیکن اسے سیاست کی نظر کر دیا گیا ہے ۔ مجھے ایک حساس ادارے کے ذمہ دار افسر نے بتایا کہ بھارت پاکستان میں کالا باغ ڈیم کے مخالفین میں سالانہ 18ارب روپے خرچ کرتا ہے ۔ پارلیمانی سیکرٹری نے ایوان میں کہا کہ کالا باغ ڈیم معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اسکی فزیبلٹی تیار ہے اگر اس پر فوری کام شروع کر دیا جائے تو یہ منصوبہ عرصہ چھ سال میں مکمل ہو سکتا ہے ۔

اس منصوبے کی تکمیل سے 3600میگا واٹ بجلی کے حصول کے علاوہ 61لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ بھی کیا جا سکے گا یہ ایسا ڈیم ہوگا جس کے سپل وے سے زیر سطح پانی کا اخراج ہو سکے گا ۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ یہ پاکستان کی بقاء کا مسئلہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر وسیم اختر نے جو حساس ادارے کی رپورٹ کی بات کی ہے وہ درست ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2001ء میں ایم ایم اے بنی تو اس وقت آمر کا دور تھا اور ایم ایم اے بھی اسکے اتحادی تھی ۔

پنجاب کی کوششوں میں کوئی کمی نہیں ، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ اس منصوبے کے لئے اتفاق رائے چاہتے ہیں ۔ ڈاکٹر وسیم اختر کی جماعت خیبر پختوانخواہ میں حکومت کی اتحادی ہے اس لئے وہ وہاں کوششیں کرائیں ۔ سید عبد العلیم شاہ نے کہا کہ پنجاب نے ہمیشہ بڑا بھائی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان کے مفاد کا تحفظ کیا ہے ۔ ڈاکٹر وسیم اختر اپنی جماعت کو کہہ کر خیبر پختوانخواہ سے قرارداد لے آئیں پنجاب اس سے دو قدم آگے بڑھ کر اقدام کرے گا ۔

ڈاکٹر وسیم اختر کے ایک اور سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری نے ایوان کو بتایا کہ ورلڈ بینک کے تعاون سے بہاولپور میں ایک نئی نہر نکالنے پر بات چل رہی ہے ۔ دریائے ستلج کے پانی سے ایک مصنوعی جھیل بھی بنائی جارہی ہے اور سات مارچ کو کمشنر کی زیر صدارت ایک اجلا س بھی ہے ۔ انہوں نے ڈاکٹر وسیم اختر کے اصرار پر ایوان کو یقین دہانی کرائی کہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں اس جھیل پر کام شروع کر دیا جائے گا۔

ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ حکومت چوکے چھکے مارتی ہے ، یہ منصوبہ فائلوں کی نظر ہے ۔ بہاولپور کی عوام کی محرومیوں اور انکے ساتھ ڈکیتیوں کی وجہ سے عوام کہتے ہیں کہ بہاولپور کو صوبہ بنایا جائے ۔ ارشد ملک ایڈووکیٹ کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری نے ایوان کو بتایا کہ ضلع ساہیوال میں موضع نتھو وصلی کی 116ایڑ اراضیاور 36گھر اور موضع کوڑے شاہ کی 319ایکڑ اراضی اور 11گھر گزشتہ پانچ سالوں مین دریا کے کٹاؤ میں آچکے ہیں ۔

حکومت نے موضع نتھو وصلی میں 37.354ملین روپے اور کوڑے شاہ زیریں میں 53.948ملین روپے کے دو گائیڈز سپر بناہے ہیں ۔ 2014-15ء کے دوران حکومت نے گائیڈ سپر نتھو وصلی کے لئے 13.0ملین روپے او رکوڑے شاہہ زیریں کے لئے 10.0ملین روپے کے فنڈز مختص کئے ہیں ۔لیفٹیننٹ کرنل (ر) سردارمحمد ایوب کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری نے ایوان کو بتایا کہ پانی چوری کے مقدمہ کو نا قابل ضمانت بنانے اور جرمانوں میں اضافے کے لئے سمری وزیر اعلیٰ کی منظوری کے بعد کابینہ کمیٹی کو بھجوا دی گئی ہے ۔

ا نہوں نے کہا کہ نئے قانون میں ایس ڈی او کو مجسٹریٹ کے اختیارات دئیے جائیں گے جبکہ پانی کی فراہمی کی شفافیت کو بھی یقینی بنایا جائے گا اور ایس ای ہی کسی پانی کو بحال کر سکے گا ۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ آبپاشی کی طرف سے پانی چوری کے خلاف درخواستوں پر مقدمات کا اندراج نہیں کر تی اسکے لئے صوبائی وزیر ‘ ایڈیشنل آئی جی ‘ ہوم سیکرٹری اور سیکرٹری ایری گیشن کی سربراہی میں کمیٹی بنائی ہے جو اس کا جائزہ لے گی ۔

سرکاری کارروائی کے آغاز سے قبل مسلم لیگ (ق) کی خدیجہ عمرنے کورم کی نشاندہی کر دی اور تعداد پوری نہ ہونے پر پانچ منٹ کیلئے گھنٹیاں بجائی گئی اور تعداد پوری ہونے پر اجلاس کی دوبارہ کارروائی کا آغاز کیا گیا ۔حکومت نے مسودہ قانون عارضی رہائش پذیر افراد کی معلومات پنجاب 2015 کثرت رائے سے منظور کر لیا جبکہ اپوزیشن کی ترامیم وقت گزرنے بعد اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرانے کی وجہ سے مسترد کر دی گئیں۔

اپوزیشن کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا کہ اسپیکر اگر حکومت کو ریلیف دے سکتے ہیں تو اپوزیشن سے بھی رعایت برتی جائے تاہم اسپیکر نے کہا کہ وزیر قانون مخالفت کر چکے ہیں اس لئے مجھے رولز کے مطابق چلنا ہے اگر آپ لوگ بیٹھ کر کوئی بات طے کر لیتے تو میں اس پرعمل کرتا تاہم بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر آزاد رکن اسمبلی احسن ریاض فتیانہ ،پیپلز پارٹی اور (ق) لیگ کے اراکین ایوان سے احتجاجاً واک آؤٹ کر چلے گئے تاہم ڈاکٹر وسیم اختر دوبارہ واپس آگئے اورانہوں نے کہا کہ ایوان میں ننھی منھی اپوزیشن ہے اسپیکر ہاؤس کا کسٹوڈین ہوتا ہے آپ ریلیف دے سکتے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ بل اچانک ایجنڈے پر رکھ لئے گئے ہیں اور اسکے لئے دن طے نہیں کیا گیا جو رولز کی خلاف ورزی ہے ۔ اس دوران قائمقام اسپیکرنے صوبائی وزیر چوہدری وحید ارائین کو اپوزیشن کے اراکین کو منا کر ایوان میں واپس لینے کے لئے بھیجا جنہوں نے واپس آ کر بتایا کہ کچھ اراکین چلے گئے ہیں جبکہ دو نے آنے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔ ایوان میں مسودہ قانون غیر محفوظ اداروں کی سکیورٹی پنجاب 2015منظوری کے لئے پیش کیا گیا ۔

قائمقام اسپیکر کی مداخلت سے ڈاکٹر وسیم اختر کو مقررہ وقت کے بعد ترامیم جمع کرانے کے باوجود بولنے کی اجازت مل گئی جس پر انہوں نے کہا کہ پولیس کو یہ اختیار بھی دیا جارہا ہے کہ وہ عبادتگاہوں کو بھی سیل کر سکتے ہیں ۔دینی مدارس کی رجسٹریشن کیلئے رشوت مانگی جارہی ہے ، ایک ، دو روپے زکوة اکٹھی کرنے والے رشوت دے کر رجسٹریشن کرائیں گے،مدارس کی رجسٹریشن کیلئے محکمہ اوقات کے ماتحت کوئی ڈائریکٹوریٹ بنا دیا جائے۔

انتخابات کے بعد حکومتی اور اپوزیشن بنچ تبدیل ہوتے رہتے ہیں ایسے قوانین نہ بنائے جائیں جو کل خود اپنے لئے مشکلات پیدا کریں ۔مسودہ قانون غیرمحفوظ اداروں کی سکیورٹی پنجاب کا بل منظوری کے مراحل میں تھاکہ اسی دوران ڈاکٹروسیم اختر نے کورم کی نشاندہی کر دی اور پانچ منٹ تک گھنٹیاں بجانے کے بعد تعدادپوری نہ ہونے پراجلاس کل( جمعرات) صبح نو بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا اورحکومت ایجنڈے پر موجود باقی تین بل منظور نہ کر اسکی۔