سی ڈی اے کا زیادہ تر بجٹ اسلام آباد کے ماڈل ویلجز پر خرچ ہونے لگا

یہ علاقے سی ڈی اے کے دائرہ کا میں بھی نہیں آتے، پلاننگ ونگ عہدیدار

بدھ 4 مارچ 2015 15:15

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔04مارچ۔2015ء) اسلام آباد کے مضافات میں پھیلتے ہوئے ماڈل ویلیجز اور دیہی مراکز سی ڈی اے کا زیادہ تر بجٹ اور ریونیو کھانے لگے اور یہ سی ڈی اے کے دائرہ اختیار میں بھی نہیں آتے ۔ انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سی ڈی اے لگ بھگ پانچ دیہی مراکز اور ماڈل ویلجز کو بنیادی سہولیات فراہم کرری ہے جس میں چک شہزاد ، ہمک ترلائی ، کری اور فراش شامل ہیں تاہم یہ علایق سی ڈی اے کے دائرہ اختیار اور دائرہ عمل میں بھی نہیں آتے اور حکام انسانی بنیادوں پر ان علاقوں کو سہولیات فراہم کررہے ہیں ۔

پلاننگ وونگ کے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ سی ڈی اے کے پاس ان دیہی علاقوں اور مراکز پر ملین روپے کے اخراجات کی کوئی قانونی بنیاد اور جواز نہیں ہے سی ڈی اے کوڑا کرکٹ ، واٹر سپلائی اور پارکوں کی دیکھ بھال پر لاکھوں کے اخراجات کررہا ہے جو اس کے دائر کار میں نہیں آتے عہدیدار کا کہنا ہے کہ یہ اخراجات سی ڈی اے کے اپنے وسائل سے بروئے کار لائے جارہے ہیں کیونکہ حکام قانونی حدود کی وجہ سے ان علاقوں کے باسیوں سے میونسپل یا دیگر ٹیکس اکٹھا نہیں کرسکی ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ علاقے اسلام آباد ضلعی انتظامیہ کے زمرے میں آتے ہیں تاہم نہ تو یونین کونسلز اور نہ ہی انتظامیہ نے سی ڈی اے کو ایک پیسہ دیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق شروع میں یہ ماڈل ویلجز اس لئے قائم کئے گئے تھے تاکہ شہری ترقی سے متاثرہ افراد کو بسایا جاسکے تاہم زمینی صورتحال انتہائی مختلف ہے کیونکہ سی ڈی اے ترقیاتی معیارات کو برقرار رکھنے میں ناکام ہوا ہے ناکامی کی وجہ بیان کرتے ہوئے سی ڈی اے کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ متاثرین نے الاٹ شدہ زمینیں باہر کے افراد کو بھیج ڈالیں جبکہ ماضی کی حکومتوں نے اس علاقے کے چیدہ چید افراد کو پلاٹ الاٹ کئے ان بااثر افراد نے 1980ء کی دہائی میں سی ڈی اے کی مینجمنٹ پر دلاؤ ڈالا اور بجلی ، پانی اور ٹیلی فون کے کنکشنز حاصل کئے ۔

سی ڈی اے کے ترجمان رمضان ساجد کا کہنا ہے وفاقی حکومت کی جانب سے سی ڈی اے کو نوٹیفکیشن کے اجراء کا انتظار ہے تاکہ اخراجات کو قانونی شکل دی جاسکے ۔ تاہم سی ڈی اے کو اسمبلی تک چیف کمشنر اسلام آباد کے بیان کا انتظار ہے

متعلقہ عنوان :